مہاراشٹر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ کر فی الحال وہیں ٹھہری ہوئی ہیں ۔ آج شام کو انتخابی تشہیر کا وقت ختم ہوجائیگا مگر سرگرمیاں موقوف نہیں ہونگی کیونکہ تشہیر کا وقت ختم ہوجانے کے بعد ’خاموش تشہیر‘کا دور شروع ہوتا ہے جو پولنگ کے دن تک جاری رہتا ہے۔
مہاراشٹر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ کر فی الحال وہیں ٹھہری ہوئی ہیں ۔ آج شام کو انتخابی تشہیر کا وقت ختم ہوجائیگا مگر سرگرمیاں موقوف نہیں ہونگی کیونکہ تشہیر کا وقت ختم ہوجانے کے بعد ’خاموش تشہیر‘کا دور شروع ہوتا ہے جو پولنگ کے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس الیکشن کیلئے کس نے کتنی محنت کی، کس کے وعدوں سے رائے دہندگان کتنا متاثر ہوئے، کس کے پیغام کو وسیع تر قبولیت حاصل ہوئی اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ان سوالوں کا جواب ایک ہفتے بعد ازخود منظر عام پر آجائیگا اس لئے پہلے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس وقت جو بات قابل ذکر ہے وہ سرزمین ِ مہاراشٹر سے ملنے والے چند مثبت اشارے ہیں ۔ ۲۳؍ نومبر کو منظر عام پر آنے والے نتائج ان اشاروں کے عین مطابق ہونگے یا مختلف یہ الگ بات ہے مگر سماج کو بانٹنے کی ہزار کوششوں کے باوجود ان اشاروں کا ملنا اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ ان میں پہلا تو یہ ہے کہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کے مقصد سےجو نعرے لگائے گئے اُن سے عوام کا بڑا طبقہ یا تو ناراض ہے یا ناگواری محسوس کررہا ہے۔ بقیہ لوگوں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔ اس کی وجہ سے لیڈروں میں بھی بے چینی رہی۔ انہوں نے خاموش تماشائی بننے کے بجائے اپنی رائے کے اظہار کی جرأت کی۔ ان میں اگر مہا یوتی کا حصہ این سی پی (اجیت) کے سربراہ اجیت پوار شامل ہیں تو بی جے پی کے لیڈروں میں پنکجا منڈے اور عرصہ ٔ دراز تک کانگریس میں رہنے کے بعد بی جے پی کا رُخ کرنے والے اشوک چوان بھی شامل ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ’’بٹیں گے...‘‘مہاراشٹر میں نہیں چلا۔ اس کے ’’نعم البدل‘‘ کے طور پر لائے گئے نعرے ’’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘‘ کو بھی اِس ریاست میں پزیرائی نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھئے:الیکشن نہیں ، ووٹروں کا امتحان
دوسرا اشارہ جو مہاراشٹر کے عوام کی جانب سے مل رہا ہے وہ پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے خلاف ناراضگی ہے۔ عوام نے اس غیر جمہوری کھیل کو بالکل پسند نہیں کیا ہے۔ اس کا ثبوت لوک سبھا انتخابات میں مل چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ۲۰؍ نومبر کا ووٹ بھی اسی کے زیر اثر دیا جائیگا۔ ایک معاصر انگریزی اخبار نے اتوار کی اپنی اشاعت میں مختلف علاقوں کے عوام کی رائے پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی اور لکھا کہ عوام پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ اوراراکین اسمبلی کے پالا بدلنے کی روِش سے برہم ہیں ۔ وہ اِسے ’’گوپال کلا‘‘ کانام دے رہے ہیں جو بہت سی چیزوں سے الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ طریقوں سے تیار کیا جانے والا جنم اشٹمی کے موقع کا پکوان ہے۔ اخبارِ مذکور نے ایک کسان کا بیان نقل کیا جس نے کہا کہ الیکشن کو گوپال کلا بنا دیا گیا ہے، دیکھ لیجئے ہر حلقے میں کتنی پارٹیاں اور کتنے اُمیدوار ہیں ۔
تیسرا مثبت اِشارہ کسی اُمیدوار کو ہرانے کیلئے آزاد اُمیدوار کھڑا کرنے، اپنے اُمیدوار کو کسی دوسری پارٹی میں بھیجنے اور یہاں سے نہیں تو وہاں سے ٹکٹ حاصل کرنے کے رجحان کاعوام کے ذریعہ نوٹس لینا ہے۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کو بار بار بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر عوام یہ سمجھانے کیلئے بیقرار ہیں کہ ہم سب کچھ دیکھ رہےہیں ، ہمیں نا سمجھ یا کم سمجھ نہ سمجھا جائے۔
سماج اور عوام کو بانٹنےکی ہزار کوششوں کے باوجود یہ مثبت اشارے کافی معنی خیز ہیں ۔ ان کی قدر کی جانی چاہئے۔ ان سے سیاسی پارٹیوں اور اُن کے لیڈروں کو بھی سبق لینا چاہئے جو الیکشن جیتنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے لگے ہیں ۔