ڈاکٹر منموہن سنگھ کا اس دارِ فانی سے کوچ کرنا نہایت افسوسناک ہے۔ بلاشبہ، اس دُنیا میں جو بھی آیا ہے اُسے لوَٹ کر جانا ہے، جب سے دُنیا بنی ہے، انسان آتے ہیں اور لوَٹ کر جاتے ہیں مگر بعض لوگوں کا جانا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ایسی ہی شخصیت تھے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا اس دارِ فانی سے کوچ کرنا نہایت افسوسناک ہے۔ بلاشبہ، اس دُنیا میں جو بھی آیا ہے اُسے لوَٹ کر جانا ہے، جب سے دُنیا بنی ہے، انسان آتے ہیں اور لوَٹ کر جاتے ہیں مگر بعض لوگوں کا جانا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ایسی ہی شخصیت تھے۔ وہ، وطن عزیز کا ایسا سرمایہ تھے جس پر سوائے فخر کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ شریف النفسی، حلم، علم اور نرم خوئی اُن کی شخصیت کی ایسی خصوصیات تھیں کہ کم ہی شخصیتوں میں یکجا ہوتی ہیں ۔ بحیثیت ماہر معاشیات اُن کی شہرت نہ صرف یہ کہ دور دور تک تھی بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی اُن کی قدرومنزلت کا وہی مقام و معیار تھا جو کہ اندرون ِ ملک تھا۔ ۲۰۰۴ء میں اُس وقت کی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے وزارت عظمیٰ کیلئے جس شخص کا انتخاب کیا وہ کوئی اور نہیں ، ڈاکٹر منموہن سنگھ ہی تھے جبکہ کانگریس پارٹی کے اراکین اور کارکنان ِ چاہتے تھے اور اس بات پر بضد تھے کہ وہ خود وزیر اعظم بنیں ۔
یہ انتخاب کتنا دور رس نتائج کا حامل تھا اس کا صحیح تجزیہ وہی کرسکتے ہیں جو غیر جانبداری کے ساتھ منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور کے اقدامات کو جانچیں اور پرکھیں ۔یہ اُن کی خاموش طبعی اور نرمی ہی تھی کہ اُن کے دس سالہ دورِ اقتدار کے آخری حصے میں اُن کے خلاف جارحانہ ماحول بنایا گیا، بدعنوانی کو موضوع بنا کر طومار باندھا گیا جبکہ مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے کہ ڈاکٹر سنگھ کا بدعنوانی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے، اُن پر پالیسیوں کو نافذ نہ کرنے (پالیسی پیرالیسس) کا الزام عائد کیا گیا، اُنہیں اتفاقی وزیر اعظم کہا گیا، یہ کہہ کر اُن کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ خود فیصلہ نہیں کرتے، ہر فائل سونیا گاندھی کو بھجواتے ہیں وغیرہ۔ اِس طرح ایک لائق و فائق وزیر اعظم کی توہین اور تحقیر کی گئی مگر جب بھی مورخ اُن کے کارناموں کاغیر جانبدارانہ احاطہ کرنے بیٹھے گا وہ کسانوں کی قرض معافی، حق معلومات کے قانون، دیہی ہندوستان میں روزگار کی اسکیم ( منریگا)، غذا کے قانون اور مفت تعلیم کے قانون کو انقلابی اقدامات قرار دینے میں تامل نہیں کرے گا۔ وہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرے گا کہ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ ہی تھے جنہوں نے وزیر مالیات کی حیثیت سے معاشی اصلاحات نافذ کیں اور وطن عزیز کو عالمی نقشے پر اُبھرتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر پیش کیا۔ آج جس غیر ملکی سرمایہ کاری پر شادیانے بجائے جاتے ہیں اُن کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ ہی نے راستہ ہموار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے :ٹرمپ اور تارکین وطن کا مسئلہ
ڈاکٹر منموہن کے ساتھ کئی ’’اول‘‘ وابستہ تھے۔ وہ ملک کے اولین سکھ وزیر اعظم تھے۔ جواہر لال نہرو کے بعد، پہلی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد تسلسل کے ساتھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی اُنہی کو حاصل تھا (اس فہرست میں اب موجودہ وزیر اعظم مودی کا نام بھی شامل ہوگیا ہے)، اسی طرح وہ اولین وزیر اعظم تھے جو وزارت عظمیٰ سنبھالنے سے قبل عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات، آر بی آئی کے سابق گورنر اور کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے تھے ۔ اُن کی شخصیت، اُن کا علم اور اُن کی خدمات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ ذہین ہوتے ہیں ، کچھ لوگ مشہور یا مقبول ہوتے ہیں ، کچھ اختراعی ذہن کے حامل ہوتے ہیں مگر کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخصیت بصیرت کی حامل (ویژنری) کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ویژنری لیڈر تھے۔ وطن عزیز اُنہیں عرصہ دراز تک یاد کرتا رہے گا۔