یوپی کے امبیڈکر نگر ضلع سے کم و بیش ۳۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے جلال پور۔ اس قصبے کے قریب ایک گاؤں ہے ججئی پور۔ ۲۱؍ مارچ کو یہاں غیر قانونی مکانوں کو توڑنے کیلئے بلڈوزر چلا جو کہ اب چلتا ہی رہتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 1:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
یوپی کے امبیڈکر نگر ضلع سے کم و بیش ۳۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے جلال پور۔ اس قصبے کے قریب ایک گاؤں ہے ججئی پور۔ ۲۱؍ مارچ کو یہاں غیر قانونی مکانوں کو توڑنے کیلئے بلڈوزر چلا جو کہ اب چلتا ہی رہتا ہے۔
یوپی کے امبیڈکر نگر ضلع سے کم و بیش ۳۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے جلال پور۔ اس قصبے کے قریب ایک گاؤں ہے ججئی پور۔ ۲۱؍ مارچ کو یہاں غیر قانونی مکانوں کو توڑنے کیلئے بلڈوزر چلا جو کہ اب چلتا ہی رہتا ہے۔ اس کے باوجود ممکن تھا کہ ججئی پور کا نام منظر عام پر نہ آتا اور اگر آجاتا تب بھی اسے اتنی وقعت حاصل نہ ہوتی جتنی ایک بچی کے سبب ہوئی۔ بچی کا نام ہے اَننیا۔ جب اس کا مکان توڑا جارہا تھا تب اس کے افراد خانہ گہرے صدمے میں تھے کہ اب سر چھپانے کی چھوٹی سی جگہ بھی نہیں رہے گی۔ بلڈوزر مکان توڑ رہا تھا اور کسی وجہ سے وہاں آگ بھی لگ گئی تھی۔ ایسے میں آگ کی پروا کئے بغیر ایک بچی دوڑتی ہوئی اپنے مکان کے ملبے تک گئی اور اپنی کتابیں او راسکول بیگ نکال لائی۔ اُسے بالکل بھی ڈر نہیں لگا۔ اُس کی ماں نے اُسے روکنا چاہا تھا مگر اُس کے جذبے کو جیسے پَر لگ گئے تھے۔ اُس میں بجلی کی سی سرعت آگئی تھی۔ ماں کے روکنے سے پہلے ہی وہ مکان کے ملبے تک پہنچ گئی تھی۔ پھر اُس نے وہی کیا جو اُسے کرنا تھا۔ وہ اپنے حال کو بچا نہیں سکتی تھی مگر مستقبل اُس کے قبضہ ٔ قدرت سے باہر نہیں تھا، وہی مستقبل جس کی بنیاد کتابوں پر رکھی جاسکتی تھی، اسی لئے اَننیا نے معمولی سی بھی تاخیر نہیں کی، وہ سہمی نہیں ، جھجکی نہیں اوریہ بھی نہیں سوچا کہ ماں کیا کہے گی۔
اپنی جان پر کھیل کر کتابیں بچانے کیلئے دوڑ پڑنے والی اَننیا کا عمل انفرادی قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس میں ملک کے ہر طالب علم کے جوش اور جذبہ کا عکس دکھائی دیتا ہے، یہ نسل ملک کے مستقبل کو کتابوں ، کاپیوں ، کمپیوٹروں ، ٹیبلٹوں ، ٹیکنالوجی اور اے آئی سے وابستہ کرنا چاہتی ہے مگر ملک کی سیاست، نئی نسل کے خوابوں پر بلڈوزر چلانے سے باز نہیں آرہی ہے۔ اَننیا نے اپنی کتابیں بچا لیں مگر کیا وہ اپنا مستقبل بھی بچا لے گی؟ کیا ایسے بے شمار طالب علموں کے مستقبل پر منحصر ملک کا مستقبل بچا لیا جائیگا؟ اس سوال پر ہر خاص و عام کو غور کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا جب مکانوں پر بلڈوزر چلتا ہے تو وہ صرف مکانوں پر نہیں چلتا، وہ اُن کے مکینوں کی آرزوؤں اور اُمیدوں پر بھی چلتا ہے، اُن کے خوابوں اور مستقبل کے منصوبوں پر بھی چلتا ہے۔ سیاست نے کبھی سوچا ہے کہ جب بلڈوزر چلتا ہے تو اَننیا جیسے کم عمر طالب علموں کے ذہن و دل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ اُن کی نفسیات کس طرح متاثر ہوتی ہے؟ ’’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘ جیسے نعرے خلق کرنا اور اُن کے ذریعہ انتخابات کو متاثر کرنا بہت آسان ہے مگر نئی نسل کے افراد کے دلوں میں ، اُن کے ذہنوں میں جھانک کر دیکھنا بہت مشکل ہے۔ اس کیلئے سینے میں دل چاہئے اور دل میں دھڑکن چاہئے، اس کے لئے دردمندی چاہئے، مسائل کو تدبر اور حکمت کے ساتھ حل کرنے کا عزم چاہئے، تعلیم کو اولین ترجیح دینے کی لگن چاہئے اور ایک ایک طالب علم سے ملک کے مستقبل کوجوڑنے کی وسیع النظری چاہئے۔ اَننیا نے بہت سوں کو آئینہ دکھا دیا ۔ اس نے یہ پیغام بھی دیا کہ چاہے مکان ٹوٹ رہا ہو، توڑا جارہا ہو، اُس کے ایک حصے میں آگ لگی ہو، اہل خانہ صدمے میں ہوں یا مزید کچھ ہو، کتابیں وہ اثاثہ ہے جو ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے اور ایسے حالات میں بھی کتابوں کو سینے سے لگانے کا جذبہ ہی وہ شاندار جذبہ ہے جس سے انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اَننیا کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا مگر وائرل اُس جذبے کو ہونا چاہئے جس کا مظاہرہ اَننیا نے کیا ۔