• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بلندی کے دعوے، پستی کے قصے

Updated: July 26, 2024, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وائبرنٹ گجرات اور گجرات ماڈل کی شہرت کہاں کہاں نہیں پہنچی۔ ملک کی ہر وہ ریاست اور علاقہ جہاں کے لوگوں نے گجرات کاکبھی دورہ نہیں کیا، اُنہوں نے کتنا اچھا تاثر لیا ہوگا ان نعروں کا۔ مگر، کیا گجرات کی حقیقت ویسی ہی ہے جیسا ان نعروں سے تاثر پیدا ہوتا ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وائبرنٹ گجرات اور گجرات ماڈل کی شہرت کہاں  کہاں  نہیں   پہنچی۔ ملک کی ہر وہ ریاست اور علاقہ جہاں   کے لوگوں   نے گجرات کاکبھی دورہ نہیں   کیا، اُنہوں   نے کتنا اچھا تاثر لیا ہوگا ان نعروں   کا۔ مگر، کیا گجرات کی حقیقت ویسی ہی ہے جیسا ان نعروں   سے تاثر پیدا ہوتا ہے؟ اگر اس ریاست کو ملک کی بعض دیگر ریاستوں   پر سبقت حاصل ہے تو اُسے وہ حیثیت ان نعروں   کے خلق کئے جانے کے پہلے سے حاصل ہے۔ اس ریاست کی حالیہ تاریخ کو کچھ اس انداز میں   پیش کیاگیا ہے جیسے یہ ریاست تعلیم، روزگار اور صحت جیسے اُمور میں   سرفہرست اور جرائم سے پاک ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ہمیں   خوشی ہوتی اگر ایسا ہوتا۔ ایک تازہ واقعہ کی طرف اشارہ اِس وقت مقصود ہے۔ سوئبا پور تعلقہ ہمت نگر ضلع سابر کنٹھا میں   ایک دلت نوجوان کو  اس لئے مارا پیٹا گیا کہ اُس نے اپنے انسٹاگرام کے ڈی پی کے بطور اپنی ایسی تصویر لگا رکھی تھی جس میں   وہ روایتی صافہ باندھے اور دھوپ کا چشمہ لگائے ہوئے ہے۔ اس نوجوان کا نام اجے پرمار ہے جو آٹو رکشا ڈرائیور ہے۔ ہم نہیں   جانتے کہ آٹو رکشا ڈرائیور ہونا اُس کا عیب تھا یا دلت ہونا اُس کی خامی مگر صافے اور دھوپ کے چشمے کو دیکھ کر کچھ لوگ اس قدر آگ بگولہ ہوئے کہ وہ اجے پرمار کی تلاش میں   نکل پڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمہیں   وہ صافہ باندھنے کی جرأت کیسے ہوئی جو صرف ’’دربار برادری‘‘ کے لوگ باندھتے ہیں   اور یہ اُنہی کا حق ہے۔ کیا اِس مخصوص قسم کے صافے پر اس برادری کی اجارہ داری ہے؟ یہ ملک کے کس قانون میں   لکھا ہے؟ خود ریاست ِ گجرات کے وہ لوگ جو قانون داں   ہیں  ، یہ نہیں   بتاسکتے کہ اُن کی ریاست نے ایسا کوئی قانون کبھی بنایا تھا۔ پھر یہ ظلم کیوں  ؟
 یہ واقعہ اُن بے شمار واقعات میں   سے ایک ہے جن میں   دلت برادری کے افراد کو محض اس لئے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ طبقاتی نظام اُنہیں   انسان کی حیثیت سے قبول کرنے کو تیار نہیں   ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی رپورٹ برائے ۲۰۲۲ء کے مطابق ۲۰۲۲ء میں   دلتوں   پر ظلم و ستم کے واقعات میں   سابقہ سال یعنی ۲۰۲۱ء کے مقابلے کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جن ریاستو ں  میں   دلت برادران کو ہدف بنانے کے واقعات زیادہ ہوئے اُن میں   یوپی، راجستھان، ایم پی، بہار، ادیشہ اور مہاراشٹر اِن پانچ ریاستوں   کے نام سب سے اوپر ہیں  ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ریاست میں   حکومت چاہے جس پارٹی کی ہو، دلت برادری کو چنداں   راحت نہیں   ملتی۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں   کا حال بھی وہی ہے جبکہ اِس پارٹی نے ۸۰۔۲۰؍ کے نعرے کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ دلت ہوں   یا انتہائی پسماندہ ذاتیں  ، سب ہندو ہیں   اور ’’ہمارے‘‘ ساتھ ہیں  ۔ 
 تعجب ہے کہ دلتوں   کے ساتھ یہ سب کچھ اُنہیں   حاصل آئینی تحفظ اور اُن کی سیاسی نمائندگی کے باوجود ہوتا ہے۔ اُنہیں   نہ تو کنویں   سے پانی لینے دیا جاتا ہے نہ ہی مندر میں   داخلہ کی اجازت ہے۔ اور بھی کئی امتناعات ہیں   جن کا سامنا انہیں   تقریباً روزانہ کرنا پڑتا ہے بالخصوص دیہی علاقو ں  میں  ۔ ہوسکتا ہے ممنوعہ چیزوں   میں   صافہ باندھنا بھی شامل کرلیا گیا ہو اور اجے پرمار کو علم نہ ہو۔ ممکن ہے دھوپ کا چشمہ لگانا جرم ہو! مگریہ کسی اور کیلئے تو جرم نہیں  ، صرف دلتوں  کیلئے کیوں   ہے، کیا اُن کا دلت ہونا گناہِ عظیم ہے؟ ایسے میں   کیا وِکست بھارت کا کیا ہوگا؟ کیا وکست بھارت میں   اونچ نیچ پر یقین رکھنے والوں   کا جذبۂ انسانیت وِکست نہیں   ہوگا؟

gujarat Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK