ریاست ِ مہاراشٹر میں ۱۹۹۵ء میں ۷۱ء۷؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے کم و بیش تیس سال کا عرصہ کچھ اس طرح گزرا کہ پولنگ فیصد نہ تو کبھی ۱۹۹۵ء کا ریکارڈ توڑ سکا نہ ہی اُس کے قریب پہنچ سکا۔
EPAPER
Updated: November 22, 2024, 2:00 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ریاست ِ مہاراشٹر میں ۱۹۹۵ء میں ۷۱ء۷؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے کم و بیش تیس سال کا عرصہ کچھ اس طرح گزرا کہ پولنگ فیصد نہ تو کبھی ۱۹۹۵ء کا ریکارڈ توڑ سکا نہ ہی اُس کے قریب پہنچ سکا۔
ریاست ِ مہاراشٹر میں ۱۹۹۵ء میں ۷۱ء۷؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے کم و بیش تیس سال کا عرصہ کچھ اس طرح گزرا کہ پولنگ فیصد نہ تو کبھی ۱۹۹۵ء کا ریکارڈ توڑ سکا نہ ہی اُس کے قریب پہنچ سکا۔ یہ پہلا موقع ہے جب پولنگ قابل قدر ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ اب بھی ۱۹۹۵ء کے قائم کردہ معیار سے بہت دور ہے مگر گزشتہ کئی انتخابات کے ریکارڈ کے پیش نظر ۶۵ء۰۲؍ فیصد غنیمت ہے۔ اگر یہ زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہے۔ غنیمت پولنگ کے کئی اسباب ہیں :
اول تو یہ کہ انتخابی کمیشن اپنی تمام تر خامیوں اور جانبداریوں کے باوجود پولنگ فیصد بڑھانے کے معاملے میں کافی فعال ہے۔ اس نے عوامی بیداری کیلئے کئی اسکیمیں اور پروگرام جاری کئے اور اب یہ ایک طرح سے اس کی روایت بن گئی ہے۔ اس نے نئے رائے دہندگان کے نام درج کرانے کا طریقہ بھی بہت سہل بنادیا ہے اور ناموں کی تصحیح یا پتہ کی تبدیلی کا نظم بھی مؤثر کردیا ہے۔ پولنگ بوتھ تلاش کرنے کا اس کا نظم بھی، جو آن لائن ہے، کافی فائدہ مند ہے۔ اب رائے دہندگان کو ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک دوڑ لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس نے معمر افراد اور معذور افراد کیلئے بھی قابل ستائش اقدام کئے ہیں ۔
دوسرا یہ کہ سماجی تنظیمیں بھی پولنگ فیصدبڑھانے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں سماجی تنظیموں کے علاوہ مساجد اور مدارس سے ووٹنگ میں حصہ لینے اور اپنا ووٹ ضائع نہ کرنے کی اپیل اُس بیداری کا ثبوت ہے جس سے خوش گوار نتائج کا برآمد ہونا لازمی تھا چنانچہ مسلم محلوں میں پولنگ کے تعلق سے پائے جانے والے جوش و خروش کو مساجد و مدارس اور علماء کرام کی مساعی ٔ جمیلہ کا نتیجہ قرار دینے میں کوئی تردد اور تکلف نہیں ہوسکتا۔
عوام بھی بیدار ہیں اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ پولنگ کا دن آنے سے چند روز پہلے سے سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ پولنگ کے دن بھی بہت سے لوگوں نے اپنا ووٹ دینے کے بعد تصویر جاری کی جس کے نتیجے موجود پیغام کا مفہوم یہ تھا کہ ہم اپنا فرض ادا کرچکے، اب آپ کی باری ہے، پہلا کام یہ کیجئے کہ اپنا ووٹ دے دیجئے۔
کئی شہروں میں اجتماعی کوششوں کے علاوہ انفرادی کوششیں بھی جاری تھیں مثلاً کاسودہ ضلع جلگاؤں کا وہ شخص جو گرام پنچایت میں کانٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمت کرتا ہے۔ وہ صبح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اور شام کو دفتر سے نکلنے کے بعد مختلف علاقوں میں جاکر لوگوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے تھے۔ اُن کے لباس پر ایک پوسٹر ہوتا تھا جس پر ’’متدان کرا‘‘ کے علاوہ درج ہوتا تھا کہ ووٹ دینا آپ کا قومی فرض ہے۔ (دیکھئے انقلاب، ۱۹؍ نومبر صفحہ ۵)۔
مہاراشٹر میں ۶۵؍ فیصد پولنگ ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شہری علاقوں کا فیصد بھی بڑھا ہے ورنہ دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہروں کے ووٹر بہت کم دلچسپی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں دفاتر کے ارباب اقتدار کا ملازمین کو سہولت دینا کہ آپ دیر سے آسکتے ہیں یا جلدی جاسکتے ہیں یا بعض دفاتر میں تعطیل، بہت اہم اور جمہوری بیداری کی دلیل ہے۔ ایسے دور میں جبکہ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے اور جمہوریت کو یرغمال بنانے کی کوشش جاری ہو، یہ بیداری ظاہر کرتی ہے کہ عوام تحفظ ِ جمہوریت کی ذمہ داری سے غافل نہیں ہیں ۔