Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

کتنا ظلم، کون ذمہ دار؟

Updated: February 04, 2025, 1:58 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ایودھیا ضلع میں جو وحشت ناک سانحہ ہوا اُس نے جہاں نئے زخم لگائے وہیں پُرانے زخموں کو تازہ بھی کیا ہے۔ یہ ۲۲؍ سالہ خاتون جس کے ساتھ مبینہ طور پر نہایت اذیت ناک حرکت کی گئی نربھیا سے مختلف نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ایودھیا ضلع میں  جو وحشت ناک سانحہ ہوا اُس نے جہاں  نئے زخم لگائے وہیں  پُرانے زخموں  کو تازہ بھی کیا ہے۔ یہ ۲۲؍ سالہ خاتون جس کے ساتھ مبینہ طور پر نہایت اذیت ناک حرکت کی گئی نربھیا سے مختلف نہیں  ہے۔ یہ کٹھوعہ کی دوشیزہ سے بھی مختلف نہیں  ہے۔ جب جب ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں  تب تب ایک تیر سے کئی شکار کئے جاتے ہیں ۔ متاثرہ کی عصمت و عفت کو تو ہدف بنایا ہی جاتا ہے، اُس کے اہل خانہ کو بھی رُسوائی کے دلدل میں  دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ متاثرہ ہی کو اذیت نہیں  پہنچائی جاتی، اُس کے اہل خانہ کو بھی شدید ذہنی اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ نہ تو اس نوع کے درج شدہ واقعات کی فہرست مختصر ہے نہ ہی درج نہ ہونے والے واقعات کی تعداد کم ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ اب واقعات اور سانحات پر پردہ ڈالنے کی کوششوں  کے خلاف مزاحمت اور معاملہ درج کروانے کی کوشش کے واقعات پہلے سے کہیں  زیادہ بڑھ گئے ہیں  مگر سماج میں  اُس سے زیادہ خرابیاں  در آئی ہیں  اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات وقفے وقفے سے پورے ملک کو اجتماعی اذیت میں  مبتلا کرتے ہیں ۔ نربھیا کے بعد ہمارے ہندوستانی سماج کی کتنی بچیوں  کو نربھیا بنایا گیا اِس سوال پر غور کرتے ہوئے جو چند باتیں  سمجھ میں  آتی ہیں  وہ یہ ہیں :
  کسی سے بدلہ لینے، کسی کا استحصال کرنے، نیچا دکھانے، سبق سکھانے وغیرہ کیلئے خواتین ہی کو ہدف بنانے کا رجحان برقرار ہے اور اس میں  متاثرہ کی غربت اور معمولی یا اس سے بھی کم خاندانی اثرورسوخ کا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تشدد کے نت نئے طریقوں  کے ذریعہ متاثرہ کو نشان عبرت بنا دینے کا طرز عمل اب پہلے سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ تیسرے، ممکنہ طور پر ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ نہ صرف متاثرہ کے خاندان کو بلکہ اُس کے تمام رشتہ داروں  حتیٰ کہ پوری برادری کو دہشت زدہ کیا جائے اور جس قدر رُسوا کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔ چوتھا سبب  ’’بدلے کی بھاؤنا‘‘ ہوسکتا ہے جو کسی سیاسی زاویئے کے سبب بڑھ جاتی ہو!
 وجوہات جو بھی ہوں ، دُکھ اس بات کا ہے کہ ان کے لئے ایک خاتون کو ناقابل یقین اذیتوں  سے دوچار کیا جاتا ہے اور برسراقتدار طبقہ ’’سخت بیانات‘‘ جاری کرکے اور نفاذِ قانون کا ذمہ دار سرکاری عملہ تفتیشی سرگرمی اور مجموعی چوکسی بڑھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں  کہ جو ہوا اُس کا سخت نوٹس لیا گیا ہے اور اب خاطیوں  کو ہرگز بخشا نہیں  جائیگا اور جب تک وہ کیفر کردار تک پہنچا نہیں  دیئے جاتے تب تک خاموش نہیں  بیٹھا جائیگا مگر یہ صورتحال کتنے دن رہتی ہے؟
  اب تک کے ہر واقعہ کے بعد چند روزہ گرماگرمی اور پھر ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ کے خاموش نعرہ کے علاوہ کبھی کچھ نہیں  دیکھا گیا۔ اگر مہذب سماج قانون سخت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اُسے منظور کرلیا جاتا ہے مگر قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش نہیں  کی جاتی۔اکثر کہا جاتا ہے کہ’’ آئندہ ایسا ہوا تو ۔۔۔۔‘‘ آخر ہر بار ایسا ہی کیوں  کہا جاتا ہے۔ یہ کیوں  نہیں  کہا جاتا کہ آئندہ ایسا نہیں  ہوگا، ہرگز نہیں  ہوگا کیونکہ نہایت پختہ اور بے داغ انتظامات کردیئے گئے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی ایسا کوئی بیان سنا ہے؟ اکجثر اوقات قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں  کی جاتی، ہمیشہ اگر اور مگر کے سابقے اور لاحقے موجود ہوتے ہیں ۔ اسی باعث ایسے واقعات کو روک پانا ممکن نہیں  ہورہا ہے۔ کوئی نہیں  جانتا کہ حالات کب بدلیں  گے! 

ayodhya Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK