• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایم وی اے نے کتنی تیاری کی ہے؟

Updated: October 22, 2024, 1:37 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہریانہ میں کانگریس کو شکست کا سامنا نہ ہوتا اور اس نے ۵۵؍ تا ۶۵؍ سیٹیں جیت لی ہوتیں تو مہاراشٹر کا انتخابی منظر نامہ دوسرا ہوتا۔ تب نہ تو مہاوکاس اگھاڑی میں سیٹ شیئرنگ پر اتنی اُٹھاپٹک ہوتی نہ ہی مہایوتی میں شامل غیر بی جے پی پارٹیوں کو بی جے پی کی جانب سے اتنے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ہریانہ میں  کانگریس کو شکست کا سامنا نہ ہوتا اور اس نے ۵۵؍ تا ۶۵؍ سیٹیں  جیت لی ہوتیں  تو مہاراشٹر کا انتخابی منظر نامہ دوسرا ہوتا۔ تب نہ تو مہاوکاس اگھاڑی میں  سیٹ شیئرنگ پر اتنی اُٹھاپٹک ہوتی نہ ہی مہایوتی میں  شامل غیر بی جے پی پارٹیوں  کو بی جے پی کی جانب سے اتنے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا۔ بہرکیف، یہ مراحل اب گزرنے کو ہیں ۔ اُمید کی جاتی ہے کہ آج یا کل تک دونوں  جانب کی تصویر واضح ہوجائیگی مگر کس کی جیت کا امکان کتنا روشن ہے یہ تصویر نتائج کے اعلان تک غیر واضح ہی رہے گی، اس کے واضح ہونے کی کوئی اُمید نہیں  ہے۔
 ’’ایم وی اے‘‘ کہلانے والے مہا وکاس اگھاڑی میں  شامل پارٹیاں  ایک ایک حلقے کا بہت ناپ تول کر جائزہ لے رہی ہیں ۔ ہر پارٹی چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیٹوں  سے الیکشن لڑے۔ اتفاق رائے بہ آسانی یا بہ دقت ِ تمام پیدا ہو جائیگا یہ بالکل طے ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی نہیں  چاہے گی کہ گٹھ بندھن ٹوٹے۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ تمام پارٹیاں  ہر ممکن جدوجہد کریں  گی تاکہ زیادہ سے زیادہ  سیٹیں  ایم وی اے کو حاصل ہوجائیں  اور اس کے اقتدار میں  آنے کی راہ ہموار ہو۔ جیسے ہی سیٹ شیئرنگ پر بات چیت مکمل ہوگی اور حتمی فہرست جاری ہوجائیگی تمام پارٹیاں ، اُن کے لیڈران اور اُمیدوار انتخابی مہم میں  مصروف ہوجائینگے اور یہ سلسلہ پولنگ کی تاریخوں  تک جاری رہے گا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ غیر معمولی مصروفیت کا موسم عنقریب شروع ہوجائیگا۔ ایسے میں  ان پارٹیوں  کے ارباب اقتدار اور ارباب حل و عقد اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کیا کرینگے کہ مہاراشٹر میں  ہریانہ جیسی صورت حال نہ پیدا ہو جہاں  بھرپور امکانات سے پیدا شدہ یقینی جیت افسوسناک ہار میں  بدل گئی اور ہر خاص و عام دیکھتا رہ گیا؟
 ہمارے نزدیک یہ اہم سوال ہے جسے ہمہ وقت ذہن میں  رکھنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں  اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید کے بعد الیکشن کمیشن کے روبرو سوال رکھا گیا کہ ریاست کی شندے سرکار نے انتخابی ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے کے بعد بھی کئی اہم فیصلے کئے اور ٹھیکے دیئے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں  نہیں  ہونی چاہئے؟ الیکشن کمیشن نے اسے خاص طور پر نوٹ کیا اور بڑی مستعدی کے ساتھ شندے سرکار کے ۱۰۳؍ فیصلے اور ۸؍ ٹھیکے بڑے مسترد کردیئے۔ ان میں  وہ لاڈلی بہنا اسکیم بھی شامل ہے جس سے اِس سرکار نے بڑی اُمیدیں  وابستہ کی تھیں ۔

یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو، ہائے ہائے

  ہم اسے الیکشن کمیشن کے احساس ذمہ داری سے تعبیر کرتے ہیں  مگر یہ شک بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں  ایسا تو نہیں  کہ جس بڑی ’’کامیابی‘‘ کی تیاری مکمل کرلی گئی ہوگی اُس کے پیش نظر چند ٹھیکوں  اور بعض فیصلوں  کو مسترد کردینے سے حکمراں  اتحاد کا نقصان نہیں  ہوگا اس لئے اُسے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں  ہے؟ 
 یاد کیجئے ہریانہ الیکشن کے وقت وہاں  کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ نے کہا تھا کہ ’’پارٹی نے تمام انتظامات کرلئے ہیں !‘‘ اس جملے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ پارٹی الیکشن جیتنے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑے گی جبکہ دوسرا مفہوم وہی ہے جو ای وی ایم پر بھروسہ نہ کرنے اور انتخابی دھاندلیوں  کا مشاہدہ کرنے والوں  نے سمجھا۔ ہم کہتے ہیں  کہ پہلا مفہوم سو فیصد صحیح ہو تب بھی دوسرے مفہوم کو خارج نہیں  کرنا چاہئے اور اگر ہریانہ میں  کچھ ’’ویسا‘‘ ہوا ہے تو مہاراشٹر میں  ویسا نہ ہونے دینے پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔ ایم وی اے کی پارٹیوں  نے اس کی کتنی تیاری کی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK