• Tue, 14 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

روپیہ اور کتنا گرے گا؟

Updated: January 13, 2025, 3:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یوپی اے کے دَور میں روپے کی قدر گرتی تھی تو اُس وقت کا اپوزیشن جو اِس وقت اقتدار میں ہے، کیا کچھ نہیں کہتا تھا مگر اب روپے کی جو حالت ہے، ظاہر ہے کہ بہت گئی گزری حالت ہے، اُس پر اہل اقتدار ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اب اُنہیں فکر لاحق نہیں ہورہی ہے کہ روپے کو کیسے سنبھالا جائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 یوپی اے کے دَور میں  روپے کی قدر گرتی تھی تو اُس وقت کا اپوزیشن جو اِس وقت اقتدار میں  ہے، کیا کچھ نہیں  کہتا تھا مگر اب روپے کی جو حالت ہے، ظاہر ہے کہ بہت گئی گزری حالت ہے، اُس پر اہل اقتدار ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔ اب اُنہیں  فکر لاحق نہیں  ہورہی ہے کہ روپے کو کیسے سنبھالا جائے۔ ہفتۂ رفتہ کے دوران ڈالر کی قیمت ۸۶؍ روپے ہوگئی تو یہ ایسی صورت حال تھی کہ جس پر مالیاتی محکمے اور مالیاتی وزارت کے تمام کارپردازان کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا کہ روپے کو کیسے سنبھالا جائے۔
  امریکہ میں  تبدیلیٔ اقتدار اور نئے صدر کے ایک دن میں  کئی کئی بیانات کی وجہ سے حالات تسلسل کے ساتھ بدل رہے ہیں ۔ ابھی باقاعدہ تبدیلیٔ اقتدار میں  مزید ایک ہفتہ باقی ہے مگر خاصی اُتھل پتھل تو مچ چکی ہے، مزید کیا کیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ ٹرمپ ہیں  تو اُتھل پتھل تو ہوگی۔ ٹرمپ ہیں  تو اس سے بھی زیادہ کا اندیشہ غلط نہیں ۔ ایسے میں  ہم یہ سمجھیں  تو غلط ہوگا کہ ڈالر کمزور ہوگا تو خود بخود روپیہ مضبوط ہونے لگے گا۔ روپے کو سنبھالنے کیلئے ہمیں  سنبھل کر بیٹھنا اور غور کرنا ہوگا نیز فوری اقدام کرنے ہوں  گے۔ کیا ایسا ہوگا اس کے بارے میں  کوئی ٹھوس جواب دینا مشکل ہے اس لئے کہ معاشی میدان میں  دو طرح کے لوگ موجود ہیں ، وہ چاہے ماہرین ہوں  یا مبصرین، ان میں  ایک قسم اُن لوگوں  کی ہے جن کا کہنا ہے کہ روپیہ مزید کم ہوگا لیکن پھر سنبھل جائیگا بالکل ایسے ہی جیسے ۲۰۲۴ء میں  اس کی قدر کم ہوئی مگر دوسرے کئی ملکوں  کے مقابلے میں  اس کی حالت ٹھیک رہی۔
 ہمیں  کہنے دیجئے کہ یہ جو موازنہ کرنے کا عمل ہے یہ بالکل بھی قابل اعتراض نہ ہوتا اگر ہم سابقہ برسوں  سے موجودہ برس کا موازنہ کرتے کہ روپے کی حالت تب کیا تھی اور اس کی قدر آج کیا ہے۔ علم معاشیات میں  یہی طریقہ ہر جگہ روا رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی اپنی فروختگی کے اعدادوشمار کو سامنے رکھتی ہے تو وہ سابقہ برسوں  کے اعدادوشمار سے احتراز نہیں  کرتی بلکہ انہی سے موازنہ کیا جاتا ہے کہ ہم تب اس حالت میں  تھے اور اب اس حال میں  ہیں ۔ ہمارے ماہرین و مبصرین جو دوسرے ملکوں  کی کرنسی سے ہندوستانی روپے کا موازنہ کررہے ہیں  وہ گویا ایک کمپنی کا موازنہ دوسری کمپنی سے کررہے ہیں  جبکہ دونوں  کمپنیوں  کے سرمائے میں ، مصنوعات میں ، ان کمپنیوں  کی مارکیٹ ویلیو میں ، گاہکوں  کے معاشی معیار میں  زمین آسمان کا فرق ہوسکتا ہے۔ یہاں  بھی جن ملکوں  سے ہم اپنا موازنہ کریں  گے اُن کے اور ہمارے اسٹیٹس میں  غیر معمولی فرق ہوسکتا ہے۔ اس لئے بہتر تو یہی ہے کہ اگر یکم جنوری ۲۰۲۵ء کو ہم دیکھ رہے ہیں  کہ روپے کی قدر عالمی بازار میں  کتنی تھی تو ہمیں  یہ دیکھنا ہوگا کہ یکم جنوری ۲۰۲۴ء میں   کیا کیفیت تھی۔ ارباب اقتدار کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے فوری اثر کے اقدام ہیں  جن سے صورت حال بدل سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں  ایکسپورٹ بڑھانے کی کوئی صورت فی الفور نکالنی ہوگی۔ جو سرمایہ کار ہندوستانی مارکیٹ سے پیسہ نکال رہے ہیں  اُنہیں  منایا جاسکتا ہے۔ نئے سرمایہ کار وں  کو تلاش کرکے اُنہیں  ہندوستانی بازار میں  انویسٹ کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ چند باتیں  ہم نے اس لئے کہیں  کہ یہی باتیں  ہمارے ذہن میں  آسکتی ہیں  جبکہ وزارت مالیات سے وابستہ ماہرین ایک سے بڑھ کر ایک تدبیر بتا سکتے ہیں ۔ کیا وہ وقت نہیں  آگیا کہ انقلابی اقدام کئے جائیں ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK