• Thu, 02 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

انسانی معاشرہ اور مسائل و مصائب

Updated: July 05, 2024, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

کروڑوں سال کی دُنیا کے بے شمار واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ جب سے تاریخ لکھی جانے لگی تب سے ایک ایک واقعہ آئینے کی طرح روشن ہے۔ جب سے ٹیکنالوجی کا فروغ ہوا تب سے دُنیا کا ایک ایک گوشہ ہر خاص و عام پر اس طرح ظاہر ہے جیسے اس کے سامنے جام جمشید رکھا ہوا ہو۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 کروڑوں  سال کی دُنیا کے بے شمار واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ جب سے تاریخ لکھی جانے لگی تب سے ایک ایک واقعہ آئینے کی طرح روشن ہے۔ جب سے ٹیکنالوجی کا فروغ ہوا تب سے دُنیا کا ایک ایک گوشہ ہر خاص و عام پر اس طرح ظاہر ہے جیسے اس کے سامنے جام جمشید رکھا ہوا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی دُنیا میں  بُرائی کو سمجھنے کا شعور پہلے کے مقابلے میں  کافی پختہ اور بلند ہوا ہے چنانچہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بُرائیاں  کم ہوتیں  اور اچھائیوں  کو غیر معمولی فروغ ملتا مگر اس وقت دُنیا میں  جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اس کے برخلاف ہے۔
 کیا اس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت نہیں  ہے؟ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کے انسان کے پاس، ماضی کے کسی بھی دور کے انسان کے مقابلے میں  زیادہ وسائل ہیں ۔ اشیائے صرف نے زندگی کو اس قدر آسان بنادیا ہے کہ آدمی کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور پھر دستیاب اشیاء کا جائزہ لیتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اُسے مطلوبہ شے کی ضرورت بھلے ہی آج ہوئی ہے، وہ شے بہت پہلے بازار میں  موجود ہے۔ درجنوں  گھنٹوں  کا سفر منٹوں  میں  طے ہورہا ہے۔ ہزاروں  میل دور بیٹھے ہوئے عزیز و اقارب سے اس طرح گفتگو ہورہی ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے ہوں ۔ یہ اور ایسی تمام ترقیات کے سبب دورِ حاضر کی زندگی آسان اور معاشرہ صحتمند ہونا چاہئے تھا مگر نہیں  ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں  مگر ان میں  اہم یہ ہے کہ انسان قناعت سے عاری ہوگیا ہے۔ اُس کی طاقت ہو یا نہ ہو، وہ مطلوبہ شے کے حصول کے درپے ہوجاتا ہے اور اُسے جائز و ناجائز ہر طریقے سے حاصل کرنے کی ضد کرنے لگتا ہے۔ بھاگ دوڑ کی زندگی نے اس کی بے سکونی میں  اضافہ کردیا ہے۔ اسی بھاگ دوڑ نے باہمی رشتوں  کے تقدس اور استحکام پر غیر معمولی اثر ڈالا ہے۔ نئی نسل کی تربیت گھر کے بڑوں  کے بس میں  نہیں  رہ گئی ہے۔ یہ اُن کی ترجیحات میں  بھی شامل نہیں  ہے۔ وہ نئی نسل کو اپنے رنگ میں  رنگنے کے بجائے خود اُس کے رنگ میں  رنگتے جارہے ہیں ۔ سماج میں  تشدد بڑھ رہا ہے۔ اسے روکنا سماجی فلاح پر یقین رکھنے والوں  کی ذمہ داری نہیں  مانا جاتا بلکہ نفاذ قانون کی ایجنسیوں  کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ منشیات کے استعمال کا رجحان نئی نسل کو تباہ کررہا ہے۔ بہت سے والدین کو تب خبر ہوتی ہے جب صورت حال قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔ اکثر لوگوں  کا دامن محبت، شفقت اور مروت سے لبریز نہیں ، بڑی حد تک خالی ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال سے وقت اور اخلاق کا زیاں  تو ہو ہی رہا ہے، نفسیاتی اور طبی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں ۔یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ گنتے چلے جائیے آپ تھک جائینگے مگر دورِ حاضر کے مسائل و مصائب کا مکمل شمار نہیں  کر پائینگے۔ سوال یہ ہے کہ جس اکیسویں  صدی میں  انسان کو زیادہ پُرسکون، صحتمند اور نفسیاتی و طبی مسائل سے محفوظ ہونا چاہئے تھا اور جس انسانی معاشرہ کو قابل قدر ہونا چاہئے تھا، کیوں  نہیں  ہے؟
 شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان فطرت سے دور اور تصنع کا عادی ہوگیا ہے۔ مذہب میں  بڑی طاقت ہے مگر اس کے نزدیک مذہب چند رسومات کا مجموعہ ہے، اسلوبِ زندگی نہیں  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب کو ماننے کا اعلان تو کرتا ہے مگر مذہب کی ماننے سے عملاً انکار کرتا ہے۔ جب تک وہ اپنے پیدا کرنے والے کے احکام کو صحیح طور پر نہیں  سمجھے گا، اس کی زندگی اور اس کا معاشرہ صحتمند نہیں  ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK