گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی جدول برائے غربت) میں ہندوستان کو اس زمرے میں جگہ ملی ہے جسے ’’سیریس کیٹگری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیاسی کروڑ شہریوں کو مفت راشن دینے کے باوجود حکومت بھوک کا علاج نہیں کر پارہی ہے؟
EPAPER
Updated: October 14, 2024, 1:39 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی جدول برائے غربت) میں ہندوستان کو اس زمرے میں جگہ ملی ہے جسے ’’سیریس کیٹگری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیاسی کروڑ شہریوں کو مفت راشن دینے کے باوجود حکومت بھوک کا علاج نہیں کر پارہی ہے؟
گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی جدول برائے غربت) میں ہندوستان کو اس زمرے میں جگہ ملی ہے جسے ’’سیریس کیٹگری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیاسی کروڑ شہریوں کو مفت راشن دینے کے باوجود حکومت بھوک کا علاج نہیں کر پارہی ہے؟ کیا مفت راشن دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے اس کے باوجود حکومت اسے اپنا غیرمعمولی فلاحی کام سمجھتی ہے؟ کیا یہ کار بے فیض ہے جو حکومت کے گلے کی ہڈی ہے جسے نہ تو نگلا جاسکتا ہے نہ ہی اگلنا ممکن ہے؟ ایک طرف ہنگر انڈیکس ہے جو ہمارا منہ چڑا رہا ہےاور دوسری طرف مفت راشن ہے جو ہر ماہ تسلسل کے ساتھ تقسیم ہورہا ہے مگر بھوک کم کرنے میں ناکام ہےـ اس صورت میں حکومت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ گڑبڑ کہاں ہے۔ کیا راشن میں دی جانے والی اشیاء اس قابل نہیں ہیں کہ بھوک کا مداوا کرسکیں یا یہ کوئی مداوا ہی نہیں ہے اور حکومت اس کے ذریعہ خود کو جھوٹی تسلی دے رہی ہے؟ اب تک دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی ایسی کوئی رپورٹ، جو تشویش پیدا کرتی ہے، حکومت اسے فی الفور مسترد کردیتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کوئی رپورٹ کتنی ہی بے بنیاد ہو، اس کی تفصیل میں جانا چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ اس میں کیا غلط ہے، کتنا غلط ہے، اس کے خلاف ہمارے پاس کیا ڈیٹا ہے، کتنے دلائل ہیں اور کیا ہم اپنے دلائل سے، نہ کہ زبانی دعوے کے ذریعہ، اس کو مسترد کرسکتے ہیں ، مگر اہل اقتدار ایسا نہیں کرتے۔ جتنے بھی جدول ہیں خواہ وہ بھوک سے متعلق ہوں یا انسانی ترقیات سے متعلق، انہیں آئینہ سمجھ کر ان میں اپنا عکس دیکھنے میں جاتا ہی کیا ہے، ان سے تو ہمیں موقع ملتا ہے کہ اپنی زمینی حقیقت کا جائزہ لیں اور اگر کہیں اصلاح کی ضرورت ہو تو اسے یقینی بنائیں ۔ کسی رپورٹ کو مسترد کرکے ہم خود کو صحیح ٹھہراتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی وہ پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ سوچئے، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہونگے۔ اتنا بڑا ملک، اتنی بڑی تہذیب، اتنی بڑی جمہوریت، وشو گرو بننے کا ارمان، کم و بیش تیسری بڑی معیشت کی حیثیت اور ان سب کے برخلاف یہ حالت کہ ہنگر انڈیکس ہمیں نیچا دکھائے اور ہم آنکھیں موند کر یہ سمجھیں کہ ہم تو غیرمعمولی ترقی کر رہے ہیں ، کیا یہ طرز عمل پائیدار ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھئے: تعلیم اور غربت، غربت اور تعلیم
نیتی آیوگ نے اس سال جنوری میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت گزشتہ دس سال میں پونے پچیس کروڑ لوگوں کو کثیر جہتی غربت سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ اس پر یقین کریں مگر یقین کرنے کی خواہش سے تو یقین نہیں آجاتا، اس کیلئے کچھ تو ایسا ہو جو بنیاد بنے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے ہیں اور دوسری طرف ان دعوؤں کو مشکوک بناتے محرکات۔ اس مسئلے کو طویل پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ قارئین جنہوں نے اندرا گاندھی کا دور دیکھا ہے انہیں غریبی ہٹاؤ کا نعرہ اچھی طرح یاد ہوگا۔تب سے لے کر اب تک غربت اگر جوں کی توں نہیں تو بڑی حد تک برقرار ہے، اس میں ایک نیا زاویہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہے غریب کے غریب تر ہونے کا۔کیا یہ نیتی آیوگ جیسے اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ عالمی جدولوں کا تجزیہ کرکے عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کریں تاکہ تشکیک کی صورت حال ہی پیدا نہ ہو؟ اعدادوشمار چھپانا یا بدلنا مسئلہ کا حل نہیں ، اپنے اعداد سے عالمی اداروں کو غلطی ماننے پر مجبور کرنا حل ہے۔ کیا نیتی آیوگ اس طرف توجہ دے گا؟ کیا وہ ہنگر انڈیکس کو غلط ثابت کرے گا؟