لالو پرساد یادو کے دورِ اقتدار پر ’’جنگل راج‘‘ کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ اس جنگل راج کی خاص بات یہ ہے کہ جب نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد کرکے مہا گٹھ بندھن بناتے ہیں اور زوروشور سے انتخابی مہم چلاتے ہیں تب لالو کے دور کو ایک بار بھی جنگل راج نہیں کہتے مگر جیسے ہی این ڈی اے کا حصہ بن جاتے ہیں ، بہار کا جنگل راج اُنہیں اچانک یاد آجاتا ہے۔
لالو پرساد یادو کے دورِ اقتدار پر ’’جنگل راج‘‘ کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ اس جنگل راج کی خاص بات یہ ہے کہ جب نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد کرکے مہا گٹھ بندھن بناتے ہیں اور زوروشور سے انتخابی مہم چلاتے ہیں تب لالو کے دور کو ایک بار بھی جنگل راج نہیں کہتے مگر جیسے ہی این ڈی اے کا حصہ بن جاتے ہیں ، بہار کا جنگل راج اُنہیں اچانک یاد آجاتا ہے۔ نتیش کمار سے درخواست کی جانی چاہئے کہ ایک بار حتمی طور پر بتا دیجئے کہ لالو کا راج جنگل راج تھا یا نہیں تھا۔
اُن سے یہ بتانے کی بھی درخواست کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ جنگل راج تھا تو موجودہ راج کون سا ہے جس میں نو عمرلڑکیوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے، اُنہیں آرکیسٹرا اور ڈانس گروپ میں شامل کرنےاور بطور تنخواہ ہر ماہ خطیر رقم ادا کرنے کا جھانسہ دے کر عصمت فروشی کے چنگل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ پولیس نے حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’اسوسی ایشن فار والنٹری ایکشن‘ (اے وی اے) کی نشاندہی پر روہتاس کے نٹور مارکیٹ علاقے کی سات الگ الگ عمارتوں پر چھاپہ مارا اور ۴۴؍ نابالغ لڑکیوں کو ایجنٹوں اور دلالوں کی قید سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ۱۰؍ تا ۱۴؍ سال کی عمر کی یہ لڑکیاں راج نندن گاؤں ، درگ، رائے پور اور بلاسپور سے لائی گئی تھیں ۔ ان میں وہ لڑکیاں بھی ہیں جو چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں کی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ بہار پولیس نے چھ گھنٹے کی مشقت کے بعد مذکورہ بچیوں کو آزاد کرایا مگر، جیسا کہ بتایا گیا، اس کی نشاندہی ایک این جی او نے کی تھی، خود پولیس اس ریکیٹ کو آشکار نہیں کرسکی۔ کون ہے جو سوال کرے کہ حکومت کا انٹلی جنس محکمہ کیا کرتا رہا اور اس کی نگاہ اُن عمارتوں پر کیوں نہیں پڑی جہاں ان بچیوں کو ٹھونس ٹھونس کر رکھا گیا تھا۔ ان کمروں میں وافر مقدار میں روشنی تھی نہ ہی اتنی جگہ تھی کہ بچیاں قاعدہ سے رہ سکیں ۔ اگر اب جنگل راج نہیں ہے تو کیا اسے منگل راج نام دیا جائے گا؟
نومبر ۲۴ء میں جہان آباد کےایک مصروف علاقے کے ہوٹل سے ۸؍ لڑکوں اور ۷؍لڑکیوں کو قابل اعتراض حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں اے بی پی نیوز نے اپنی ایک خبر میں انکشاف کیا تھا کہ ’’پولیس نے کچھ دن پہلے بھی اس ہوٹل پر دستک دی تھی اور ایک ذمہ دار کو حراست میں لیا تھا لیکن سیکس ریکیٹ کا کاروبار بند ہونے کے بجائے تیزی سے چلنے لگا۔‘‘ خبر کی اِن سطور سے شبہ ہوتا ہے کہ کوئی بہت با اثر سیاستداں یا اعلیٰ عہدیدار پشت پناہی کررہا تھا ورنہ ہوٹل پر ایک بار چھاپہ پڑ جانے کے بعد ایسی سرگرمی کے جاری رہنے کا اور کیا سبب ہوسکتا ہے؟
بات صرف روہتاس یا جہان آباد کی نہیں ہے، بہار لگاتار اس نوعیت کی خبروں میں جگہ بناتا رہا ہے۔ کسی ایک معاملے کا انکشاف اُسی طرح کے کسی دیگر معاملے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا چنانچہ آئے دن انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور خبریں بنتی رہتی ہیں ۔ ایسے گورکھ دھندوں میں ملوث لوگ اور ان کی سرگرمیوں سے پولیس نیز اعلیٰ حکام غافل ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں کی پولیس کو صلاحیت و اہلیت کے اعتبار سے کم آنکا جائے۔ مشکل یہ ہےکہ سیاست، پولیس کا راستہ روکنے سے باز رہتی ہے نہ پولیس کو سیاست کی مدد کرنے سے بیر ہے۔ مسئلہ بُری طرح پسنے والی غریب خاندانوں کی نوعمر بچیوں کا ہے جن کی زندگی اندھیروں میں بھٹکا دی جاتی ہے اور سب کچھ روشن باور کرایا جاتا ہے!