Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نہ سمجھو گے تومٹ جاؤ گے ’’انڈیا‘‘ اتحاد والو!

Updated: February 11, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جب ۲۰۲۳ء میں ’’انڈیا‘‘ اتحاد قائم کیا گیا تھا تب این ڈی اے کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد کو چونکہ عوام کی آرزوؤں کی تکمیل کے طور پر دیکھا جارہا تھا اس لئے بہت سے لوگ یہ جانتے ہوئے بھی اس کیلئے دعاگو تھے کہ اپنے اپنے مفاد کیلئے لڑنے والی یہ پارٹیاں کبھی ایک نہیں ہوسکتیں اور وسیع تر مشترکہ مفاد کیلئے ذاتی مفاد کو قربان کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جب ۲۰۲۳ء میں  ’’انڈیا‘‘ اتحاد قائم کیا گیا تھا تب این ڈی اے کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد کو چونکہ عوام کی آرزوؤں  کی تکمیل کے طور پر دیکھا جارہا تھا اس لئے بہت سے لوگ یہ جانتے ہوئے بھی اس کیلئے دعاگو تھے کہ اپنے اپنے مفاد  کیلئے لڑنے والی یہ پارٹیاں  کبھی ایک نہیں  ہوسکتیں  اور وسیع تر مشترکہ مفاد کیلئے ذاتی مفاد کو قربان کرنا ان کی ترجیح نہیں  ہے۔ خدشات تب بھی تھے مگر ظلمت میں  روشنی کی کرن سب کو متوجہ کرتی ہے اور راحت رساں  بنتی ہے۔ انڈیا اتحاد بھی روشنی کی کرن تھا۔ اب بھی ہے مگر ٹوٹنے، بے معنی ہونے یا بے اثر ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جموں  کشمیر نیشنل کانفرنس کے لیڈران کچھ کہہ رہے ہیں ، شیو سینا کے ارباب اقتدار کا لہجہ کچھ اور ہے، ممتا بنرجی شروع سے خوش نہیں  ہیں ، بنگال کے الیکشن میں  اُنہو ں نے اپنی پارٹی کا کسی سے اتحاد نہیں  کیا تھا، اروند کیجریوال الائنس میں  آئے نہیں  لائے گئے تھے، ایک آدھ میٹنگ کے بعد اُن کے تیور بدل گئے، ہریانہ میں  اُنہوں  نے کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں  کیا تھا، دہلی کے حالیہ انتخابات میں  بھی گھاس نہیں  ڈالی او راس کا خمیازہ بھگتا۔ آر جے ڈی ساتھ ہے اور لالو پرساد پُرانے دوست ہیں  مگر یہ پارٹی بھی دل سے کانگریس کو سینت سینت کر رکھنے کی روادار نہیں  ہے۔ این سی پی خود اپنی بقاء کی جنگ میں  مصروف ہے اس لئے انڈیا اتحاد کے ساتھ رہے تب بھی کیا ہوجائیگا اور علاحدہ ہوجائے تب بھی کیا۔دیگر پارٹیوں  کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔ کہیں  پر کانگریس کی کوئی حلیف پارٹی اتحاد کے اپنے موقف پر قائم ہے تو وہ تمل ناڈو ہے۔ ایم کے اسٹالن کی اس خوبی کو تسلیم کرنا چاہئے کہ انہوں  نے اتحاد کی راہ میں  کبھی اسپیڈ بریکر نہیں  حائل کئے۔ سماج وادی پارٹی کے ساتھ بھی کانگریس کے رشتے اچھے ہی ہیں  مگر کب تک رہیں  گے یہ کہنا مشکل ہے۔ اس تفصیل کا ماحصل یہ ہے کہ انڈیا اتحاد کی شکل میں  یکجا ہونے والی پارٹیاں  یا تو پہلے دن سے بے دلی کے ساتھ وابستہ ہوئی تھیں  یا بعد میں  اُن میں  بے دلی پیدا ہوئی۔ ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر پارٹی کو بی جے پی کے عزائم کا مقابلہ کرنا ہے مگر اپنی شرطوں  پر، مصلحت کے سبب اور قربانی کے بغیر۔ کانگریس نے خود بھی اس اتحاد کو غیر معمولی تو کیا خاص اہمیت بھی نہیں  دی۔ اس نے ’’انڈیا‘‘ کا نہ تو مرکزی دفتر قائم کرنے میں  دلچسپی لی نہ ہی کسی کو کنوینر مقرر کیا۔
 ایسے حالات میں  انڈیا اتحاد کے مستقبل پر لگا سوالیہ نشان روز بہ روز گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس کے برخلاف جس اتحاد (این ڈی اے ) کے مقابلے کیلئے یہ الائنس قائم ہوا تھا، وہ ازسرنو مضبوط ہورہا ہے۔ بالخصوص ہریانہ، مہاراشٹر اور دہلی کے اسمبلی انتخابات کے بعد اُس بی جے پی کو نئی طاقت ملی ہے جو لوک سبھا الیکشن میں  تین سو پار اور چار سو پار کے نعروں  کے باوجود ۲۴۰؍ پر کچھ اس طرح سمٹ گئی تھی کہ اسے جے ڈی یو اور تیلگو دیشم پارٹی کا سہارا لینا پڑا۔ اب وہی بی جے پی جس کے اوسان خطا تھے، دوسروں  کے اوسان خطا کرنے کے درپے ہے۔ عجب نہیں  کہ علاقائی پارٹیوں  میں  ٹوٹ پھوٹ کی کیفیت پھر پیدا ہو۔ عجب نہیں  کہ انڈیا اتحاد بکھر جائے۔ عجب نہیں  کہ ایک شیو سینا خود کو ’’نظر انداز شدہ‘‘ محسوس کرکے  الگ ہوجائے اور دوسری شیوسینا بی جے پی سے پرانا رشتہ استوار کرلے۔ عجب نہیں  کہ انڈیا اتحاد کو باقی رکھنے کی کوشش میں  اس کی کمان کانگریس کے ہاتھوں  سے چھین لی جائے۔ عجب نہیں  کہ از سرنو تیسرا محاذ قائم ہوجائے اور عجب نہیں  کہ ملک گیر یاتراسے تقویت پانے والی کانگریس ایک بار پھر قعر مذلت میں  گر جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK