مرشد آباد ( مغربی بنگال) میں تشدد کے واقعات نہایت افسوسناک ہیں ۔ اس کے ذمہ داروں کو قانون کے دائرہ میں لانا اور اُن کے خلاف کارروائی کرنا پولیس کا اولین فرض ہے جس کاغیر جانبداری کے ساتھ پورا کیا جانا ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: April 15, 2025, 1:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مرشد آباد ( مغربی بنگال) میں تشدد کے واقعات نہایت افسوسناک ہیں ۔ اس کے ذمہ داروں کو قانون کے دائرہ میں لانا اور اُن کے خلاف کارروائی کرنا پولیس کا اولین فرض ہے جس کاغیر جانبداری کے ساتھ پورا کیا جانا ضروری ہے۔
مرشد آباد ( مغربی بنگال) میں تشدد کے واقعات نہایت افسوسناک ہیں ۔ اس کے ذمہ داروں کو قانون کے دائرہ میں لانا اور اُن کے خلاف کارروائی کرنا پولیس کا اولین فرض ہے جس کاغیر جانبداری کے ساتھ پورا کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ممتا بنرجی کی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ وقف بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ تو شامل نہیں ہوگئے ہیں جو اس کاز کو نقصان پہنچانے، مغربی بنگال کی نظم و نسق کی صورت حال کو خراب کرنےاور ایسے وقت میں ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کے درپے ہیں جب اسمبلی انتخابات کو ایک سال سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔مرشد آباد کے تشدد کے سلسلے میں ممتابنرجی کا یہ بیان درست ہے کہ جب اُنہوں نے دوٹوک اعلان کردیا ہے کہ ریاست میں نیا وقف قانون نافذ نہیں کیا جائیگا تو مغربی بنگال میں اس کے خلاف احتجاج کیا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں ممتا بنرجی کو اس بیان پر اکتفا کئے بغیر اپنی ریاست کی انٹیلی جنس کو سرگرم کرنا ہوگا کیونکہ مرشد آباد کے حالات معمول پر آنے کے بعد گزشتہ روز ۲۴؍پرگنہ ضلع سے بھی تشدد اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کی خبریں ملی ہیں ۔
بتایا گیا ہے کہ توڑ پھوڑ اور آتشزنی کے واقعات اُس وقت رونما ہوئے جب بسنتی ہائی وے پر پولیس نے اُن لوگوں کو روکا جو کولکاتا کے رام لیلا میدان کی ریلی میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔ ریلی کا اہتمام بھنگر کے رکن اسمبلی نوشاد صدیقی نے کیا تھا جو انڈین سیکولر فرنٹ کے چیئرمین ہیں ۔ انہوں نے راشٹریہ سیکولر مجلس پارٹی سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے تھے ۔ ممتا کے مذکورہ بیان کا خیرمقدم کرنے کے باوجود اُنہوں نے رام لیلا میدان پر ریلی کا اعلان کیا۔ بتایا جاتاہے کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں انڈین سیکولر فرنٹ کے رضاکار شامل تھے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس تنظیم کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ اُن کی وجہ سے کہیں ایسے حالات تو پیدا نہیں ہورہے ہیں جومسلمانوں کے وسیع تر مفادات کے خلاف ہیں ؟
نئے وقف قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی گئی عرضداشتوں کی سماعت شروع ہونے اور اس کے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے تک انتظار کیا جانا چاہئے۔ کم وبیش ایک درجن عرضداشتیں داخل ہوچکی ہیں ، اس لئے عدلیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر تشدد بڑھا اور حالات بگڑے تو مخالفین کو بہت کچھ کہنے اور ماحول کو پولرائز کرنے کا موقع ملے گا۔ اس سے ہر ممکن سطح پر گریز کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اس اپیل کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ احتجاج اور مظاہرہ ہو تو پُرامن ہو۔ اس پر ہر خاص و عام کو توجہ دینا چاہئے کیونکہ تشدد کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اگر ایسے عناصر مظاہرہ میں پائے جائیں جو اشتعال انگیزی کررہے ہوں یا جن کے تیور ٹھیک نظر نہ آتے ہوں تو اُن کی شکایت منتظمین سے کی جانی چاہئے کیونکہ ان کا طرز عمل اس شبہ کو راہ دے گا کہ یہ کسی اور کا آلۂ کار بن رہے ہیں ۔ کل کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ۲۴؍ پرگنہ میں پولیس نے جب مظاہرین کو روکا تو وہ وہ بے قابو ہوگئے اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی۔ انہوں نے شاہراہ پر دھرنا دیا اور ٹریفک میں خل ڈالا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ فی الحال وقف کے خلاف عدلیہ کے رُخ کا انتظار کیا جائے، احتجاج ہو تو پُرامن ہو اورپُروقار طریقے سے ہو !