جاپان کا شہر ناگاساکی ہو یا ہیروشیما، ان سے ہر خاص و عام خوب واقف ہے۔ کرۂ ارض پر پائے جانے والے یہ ایسے بدنصیب شہر ہیں جن پر ہائیڈروجن بم پھینکے گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں شہروں پر موت اس طرح ٹوٹ پڑی تھی جیسے کسی مردار جانور پر کوے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اُس وقت ہیروشیما میں ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ مارے گئے تھے
جاپان کا شہر ناگاساکی ہو یا ہیروشیما، ان سے ہر خاص و عام خوب واقف ہے۔ کرۂ ارض پر پائے جانے والے یہ ایسے بدنصیب شہر ہیں جن پر ہائیڈروجن بم پھینکے گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں شہروں پر موت اس طرح ٹوٹ پڑی تھی جیسے کسی مردار جانور پر کوے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اُس وقت ہیروشیما میں ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ مارے گئے تھے جبکہ اس کے تین روز بعد جب ناگاساکی پر بھی ویسا ہی بم گرایا گیا تو ۷۴؍ ہزار افراد نے داعی ٔاجل کو لبیک کہا تھا۔ہلاکتوں کا صحیح اندازہ نہ تو تب لگ سکا تھا نہ ہی اب تک بھی وثوق سے کوئی بات کہی جاسکتی ہے مگر یہ طے ہے کہ کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد تب سے اب تک موت کی آغوش میں پہنچ چکے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہو کیونکہ مذکورہ شہروں کے بخئے اُدھیڑ دینے والی وارداتوں کے تصور سے آج ۸۰؍ سال بعد بھی روح فنا ہونے لگتی ہے۔
بعد از تلاشِ بسیار بھی ہمیں مارچ ۲۰۰۷ء کے بعد کے اعدادوشمار نہیں مل سکے ہیں ۔ ۲۰۱۷ء میں اُن لوگوں کی تعداد، جو مذکورہ وارداتوں کے وقت موجود تھے، ۲؍ لاکھ ۵۱؍ ہزار ۸۳۴؍ تھی۔ اُنہی میں سے ایک تھے ۹۳؍ سالہ شاگامی فوکاہوری جن کا چند روز قبل انتقال ہوا اور گزشتہ روز اُن کی آخری رسومات ادا کی گئیں ۔ اس شخص نے ناگاساکی پر بم اندازی کے اثرات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ فوکاہوری کا کہنا تھا کہ تابکاری کے اثرات اتنے شدید تھے کہ جب ایک شخص نے اُن سے مدد کی درخواست کی اور اِنہوں نے قریب جاکر اُس کا ہاتھ پکڑا تو اُس شخص کی ہاتھ کی جلد پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ انگریزی خبرو ں میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: The person’s skin melted۔ فوکاہوری اُس وقت ۱۴؍ سال کے تھے۔ اُنہوں نے جو کچھ بھی دیکھا اُس کی اِتنی ہیبت طاری تھی کہ اُن کی آواز ہی بند ہوگئی تھی اور کئی سال بند رہی۔ اب سے ۱۵؍ سال پہلے جب وہ اسپین کے دورہ پر تھے تب اُن کی ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس نے اسپین کی خانہ جنگی کے دوران گرینکا پر ہونے والی بمباری کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا شروع کیا تو دردِ مشترک کے باعث ایک غمزدہ کی آواز سن کر دوسرے غمزدہ کی آواز کھل گئی۔
فوکاہاری نےروئے زمین پر امن کی ضرورت کو کس شدت سے محسوس کیا تھا اس کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر دُنیا سے کچھ منوانے کا اختیار اُن کے پاس ہوتا تو وہ ہائیڈروجن یا نیوکلیائی بم کی تیاری پر پابندی لگوا دیتے۔ چونکہ یہ اُن کے بس میں نہیں تھا اس لئے اُنہوں نے اپنی بقیہ زندگی امن کی تبلیغ میں گزاری۔ وہ اکثر طلبہ سے خطاب کیا کرتے تھے تاکہ اُنہیں سمجھا سکیں کہ کس طرح اُنہیں امن سے دوستی اور جنگوں سے نفرت کرنی چاہئے۔ انہوں نے جو بات بار بار کہی وہ یہ تھی کہ ’’مَیں اُمید کرتا ہوں ہیروشیما اور ناگاساکی وہ آخری شہر تھے جن پر بم اندازی ہوئی تھی، اب کسی اور شہر پر ایسی قیامت نہیں ٹوٹنی چاہئے۔‘‘ ۲۰۱۹ء میں جب پوپ فرانسس نے ناگاساکی کا دورہ کیا تھا تب فوکاہوری نے اُن کی خدمت میں سفید پھولوں کا تحفہ پیش کیا تھا۔
شاگامی فوکاہوری اب اس دُنیا میں نہیں ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ موجودہ دَور ہی میں نہیں ، آنے والے ہر دَور میں اُن کی روح اِس جنگ پسند دُنیا کو، جو جنگوں کے بہانے ڈھونڈتی ہے، سمجھاتی رہے گی کہ جنگ بُری بلا ہے، نہایت بُری بلا۔