• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

انڈیا اتحاد کی ڈولتی سنبھلتی ناؤ

Updated: January 15, 2025, 1:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

لوک سبھا (۲۰۲۴ء) کے پہلے جن بزرگ شخصیات کے خیالات ذوق و شوق سے سنے جارہے تھے اُن میں سابق مرکزی وزیر اور سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا شامل تھے جو مودی حکومت کو معاشی اور سیاسی نقطۂ نظر سے ہدف ِتنقید بنارہے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 لوک سبھا (۲۰۲۴ء) کے پہلے جن بزرگ شخصیات کے خیالات ذوق و شوق سے سنے جارہے تھے اُن میں  سابق مرکزی وزیر اور سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا شامل تھے جو مودی حکومت کو معاشی اور سیاسی نقطۂ نظر سے ہدف ِتنقید بنارہے تھے۔ اُن کے علاوہ ایک اور نام ستیہ پال ملک کا تھا جو کافی گونج رہا تھا۔ ستیہ پال ملک جموں  کشمیر کے گورنر رہ چکے تھے مگر مستعفی ہونے کے بعد وہ مودی حکومت کے سخت ترین ناقد بن گئے۔ اپنے کئی انٹرویوز میں  انہوں  نے حکومت پر کئی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے اُسے کٹہرے میں  کھڑا کیا تھا۔ اُس وقت خیال کیا جارہا تھا کہ اس سے مودی حکومت کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوگی۔ یہ خیال غلط نہیں  تھا۔  لوک سبھا (۲۰۲۴ء) میں  بی جے پی کو ملنے والی نسبتاً کم سیٹیں  یہ گواہی دینے کیلئے کافی تھیں  کہ ’’انڈیا ‘‘ اتحاد کےپرچم تلے اپوزیشن کی پارٹیوں  کا یکجا ہونا اور یشونت سنہا نیز ستیہ پال ملک جیسی شخصیات کا اس اتحاد کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کرنا سودمند ثابت ہوا۔ بی جے پی اور این ڈی اے اپنے طے کردہ ہدف سے بہت پیچھے رہے جو ایک طرح سے ان کی شکست تھی۔ اس ’’شکست‘‘ کے سبب چند ماہ تو بی جے پی لیڈروں  کے حواس گم رہے مگر ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے پانسہ پلٹ دیا اور جو حواس گم ہوئے تھے، بحال ہوگئے۔ اِس کے برخلاف انڈیا اتحاد کو لوک سبھا کے انتخابی نتائج کی وجہ سے جو حوصلہ ملا تھا، وہ ٹوٹ گیا اور اب تو اتحاد ہی ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ 
 دراصل انڈیا اتحاد میں  پہلے ہی سے سب کچھ ٹھیک نہیں  تھا۔ یہ اتحاد جولائی ۲۳ء میں  قائم ہوا تھا اور اس میں  پہلی دراڑ نتیش کمار کی بے وفائی کے سبب پیدا ہوئی تھی جنہوں  نے محض چھ ماہ میں  پالہ بدل لیا تھا۔ نتیش تو گئے ہی، ممتا بنرجی نے بھی الگ طرز عمل اختیار کیا۔ وہ ’’انڈیا‘‘ کے ساتھ تھیں  بھی اور نہیں  بھی۔ کچھ ایسا ہی طرز عمل عام آدمی پارٹی کا بھی تھا۔ آئندہ ماہ کے دہلی انتخابات کے تعلق سے بھی عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں  اختلاف ہے، یہاں  دونوں  پارٹیاں  الگ الگ لڑ رہی ہیں ، ان میں  اتحاد نہیں  ہے یعنی ’’انڈیا‘‘ الیکشن نہیں  لڑرہا ہے۔ مزید مثالوں  سے قطع نظر کہنا یہ مقصود ہے کہ شروع سے انڈیا اتحاد کی ناؤ کبھی ڈولتی کبھی سنبھلتی رہی۔ اب بھی ڈولنا اور سنبھلنا جاری ہے۔ اگر ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج ویسے نہ ہوتے جیسے کہ ظاہر ہوئے تب تو صورت ِ حاصل مختلف ہوسکتی تھی مگر اِن مایوس کن نتائج کے سبب مزید ڈولنے کی کیفیت بلکہ ڈوب جانے کا خطرہ زیادہ اور سنبھلنے یا پار لگنے کا امکان کم ہے۔ یہ سب اس لئے ہوا اور ہورہا ہے کہ اتحاد بنا تھا، ہوا نہیں  تھا۔ ہاتھ ملے تھے دل نہیں  ملے تھے۔ دل کیوں  نہیں  ملے؟ اس کی وجہ بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں  ہے کہ سمجھنا مشکل ہو۔اپوزیشن کی جتنی پارٹیاں  (علاقائی) ہیں ، سب کانگریس کی سیاسی زمین پر قابض ہوئی ہیں ۔ ان کے ساتھ اتحاد کانگریس کے وسیع تر مفاد میں  نہیں  ہے اس لئے کانگریس انہیں  زیادہ موقع نہیں  دینا چاہتی۔ یہی علاقائی پارٹیوں  کے پیش نظر بھی ہے کہ اگر کانگریس مضبوط ہوئی تو اُن کی سیاسی طاقت کم ہوجائیگی۔ انڈیا اتحاد کا یہ بڑا مخمصہ ہے۔ ’’سامنا‘‘ کے ایک حالیہ شمارہ میں  کانگریس کو، این ڈی اے سے سیکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے کہ دیکھئے این ڈی اے میں  پھوٹ نہیں  پڑتی۔ مشورہ عمدہ ہے مگر قابل عمل نہیں  کیونکہ این ڈی اے میں  شامل پارٹیوں  کا اثرورسوخ اُتنا نہیں  ہے جتنا انڈیا اتحاد کی پارٹیوں  کا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK