اس میں شک نہیں کہ قانونی دستاویزات اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ ہی کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا چاہئے خواہ آپ روزگارکے مقصد سے جائیں یا تعلیم کے مقصد سے، سیرو تفریح کیلئے جائیں یا رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی خاطر۔
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 1:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اس میں شک نہیں کہ قانونی دستاویزات اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ ہی کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا چاہئے خواہ آپ روزگارکے مقصد سے جائیں یا تعلیم کے مقصد سے، سیرو تفریح کیلئے جائیں یا رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی خاطر۔
اس میں شک نہیں کہ قانونی دستاویزات اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ ہی کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا چاہئے خواہ آپ روزگارکے مقصد سے جائیں یا تعلیم کے مقصد سے، سیرو تفریح کیلئے جائیں یا رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی خاطر۔ جب تک قانونی دستاویزات موجود نہ ہوں ، تب تک پرائے ملک روانگی کا ارادہ تک نہیں کرنا چاہئے۔ اس اُصول کے پیش نظر، ہمارے ملک کے جو لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچے اور وہاں روزگار اختیار کیا، وہ غلطی پر تھے۔ سراسر غلطی پر تھے۔ مگر کیا صرف اُن کی غلطی تھی اور کسی کی نہیں ؟ ہرملک اپنی سرحدوں کی حفاظت پر کثیر رقم خرچ کرتا ہے۔ سرحدوں پر مامور سپاہیوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی کو اپنے ملک کی سرحد میں داخل نہ ہونے دیں ۔ اگر امریکہ میں غیر قانونی داخلہ ممکن تھا تو یقیناً وہاں کے افسروں کی بدعنوانی کے سبب رہا ہوگا۔یہ رویہ اور طریقہ برسوں سے جاری ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی امریکہ پہنچے بلکہ روزگار بھی حاصل کیا۔ اگر غیر قانونی طور پر داخل ہونےوالوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے تو صدرِ امریکہ، جو ہمیشہ طیش میں رہتے ہیں ، اپنی سرحد کے اُن نگہبانوں (سپاہیوں اور افسروں ) کو بھی سزا دیں جنہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کی جانب سے آنکھ بند کررکھی تھی؟
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب جو کچھ کررہے ہیں سب یکطرفہ ہے۔
دوسری بات۔ امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن نہ تو سماج دشمن عناصرکا کردار ادا کررہے تھے نہ ہی جرائم کی آبیاری کررہے تھے۔ وہ اپنی محنت ’’فروخت‘‘ کرکے چھوٹے موٹے روزگار کے ذریعہ کچھ کما رہے تھے۔ اُن کی محنت سے امریکہ فیضیاب ہورہا تھا لہٰذا ان کے ساتھ بہتر سلوک ہونا چاہئے تھا۔ امریکہ نے اُنہیں اس طرح نکالنا شروع کیا ہے جیسے وہ امریکہ پر بوجھ تھے ( جبکہ وہ امریکہ کا بوجھ کم کررہے تھے) یا امریکہ کو شدید نقصان سے دوچار کررہے تھے۔
تیسری بات۔ ہر قانونی کارروائی کا قانونی طریقہ ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ تو منصف بھی بن گیا اور عدالت بھی۔ کسی غیر قانونی تارک ِ وطن کو نہ تو نوٹس دیا گیا نہ ہی مہلت دی گئی۔ ہندوستان واپس بھیجے جانے والے لوگوں کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اُنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان لوگو ں پر آناً فاناً کارروائی کی گئی لہٰذا جو جس حالت میں تھا، اُسے اُسی حالت میں زنجیریں پہنا کر روانہ کردیا گیا۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب امریکہ کے خطرناک تیور منظر عام پر تھے، تب ہم کیا کررہے تھے۔ ہماری حکومت نے کیوں ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ (پردہ کے پیچھے کی سفارت) کے ذریعہ ٹرمپ انتظامیہ کو ہموار نہیں کیا کہ بے شک آپ ہمارے شہریوں کو واپس بھیجیں مگر اس طرح کہ اُن کے حقوق پامال نہ ہوں ، اُن کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور اُنہیں دیکھ کر ایسا نہ لگے جیسے انہوں نے کسی خطرناک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ حیرت سے زیادہ افسوس ہے کہ ہماری حکومت، امریکہ سے اعلیٰ معیاری تعلقات کے ہزار دعوؤں کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکی کہ ہندوستانیوں کے ساتھ بہتر سلوک ہو۔ کس کام کے اعلیٰ معیاری تعلقات جب ٹرمپ انتظامیہ، مائی فرینڈ مودی کے ملک کے ساتھ ایسا سلوک کرے کہ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانی تحقیر و تذلیل محسوس کریں ؟