سماج کا متوسط طبقہ، نچلا متوسط طبقہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ۔ یہ تین اصطلاحات عرصۂ دراز سے استعمال کی جارہی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے مفہوم سے واقف ہیں
EPAPER
Updated: January 23, 2025, 6:45 PM IST | Mumbai
سماج کا متوسط طبقہ، نچلا متوسط طبقہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ۔ یہ تین اصطلاحات عرصۂ دراز سے استعمال کی جارہی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے مفہوم سے واقف ہیں
سماج کا متوسط طبقہ، نچلا متوسط طبقہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ۔ یہ تین اصطلاحات عرصۂ دراز سے استعمال کی جارہی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے مفہوم سے واقف ہیں مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ متوسط طبقہ وہ ہے جس کے افراد ہر ماہ کھا پی کر کچھ بچا لینے اور معیارِ زندگی کو بہتر کرلینے کے متحمل ہوتے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ اس کے افراد تنگی ترشی کے ساتھ گھر تو چلا لیتے ہیں مگر ان کی چادر چھوٹی ہوتی ہے، پیر ڈھانک لیں تو سر اور سر ڈھانک لیں تو پیر کھل جاتے ہیں۔ اعلیٰ متوسط طبقے سے مراد یہ ہےکہ اس طبقے کے افراد کے پاس امیروں جیسی تو نہیں مگر امیروں سے مشابہ سہولتیں ہوتی ہیں۔ چھوٹا ہی سہی فلیٹ ہوتا ہے، کم قیمت کی سہی کار ہوتی ہے، ان کے بچے انگریزی ذریعۂ تعلیم سے پڑھتے ہیں اور ماں کو ممی، باپ کو ڈیڈی بولتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو جلد ہی مالداروں میں شمار ہونگے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ سماج کے ان تین میں سے دو طبقات (نچلا متوسط اور اعلیٰ متوسط) کبھی موضوع بحث نہیں بنے۔ موضوع بحث صرف متوسط طبقہ بنتا ہے۔ اس پر کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں مثلاً سفارت کار پون ورما کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’دی گریٹ انڈین مڈل کلاس‘‘۔ اس کتاب کے مشمولات سے بحث کرنا دلچسپی کا باعث ہوگا مگر فی الحال ہمارا موضوع کتاب نہیں ہے بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ متوسط طبقہ اس لئے موضوع بحث بنتا ہے کہ اس کے اوپر کی سطح پر جو طبقہ ہے (اعلیٰ متوسط) وہ سیاسی اُمور میں کم کم دلچسپی لیتا ہے اور کچھ یہی حال اس کے نیچے کی سطح پر موجود طبقے (نچلے متوسط) کا حال ہے، اسی لئے سیاستدانوں نے عموماً متوسط طبقے ہی کو ذہن میں رکھ کر اظہار خیال کیا، پالیسی بنائی اور وعدے کئے۔
یہ طبقہ (کلاس) بنیادی طور پر آزادی سے پہلے کے ہندوستان میں انگریزوں کی اختراع تھی جو چاہتے تھے کہ آبادی کے ایک طبقے کو ذہنی طور پر اس طرح ڈھالا جائے کہ وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہے مگر طرز فکر اور معیارِ زندگی کے اعتبار سے انگریزوں کے قریب تر ہو۔ یہ کوشش صد فیصد تو کامیاب نہیں ہوئی مگر ا س کی وجہ سے ایک علاحدہ طبقے کی بناء پڑی جو متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس کہلایا۔ چونکہ یہی طبقہ حکومت کے سامنے مطالبات پیش کرتا ہے، احتجاجی مظاہرے کرتا ہے، حکومتی کاموں پر تنقید سے باز نہیں رہتا اور ناراض ہوجائے تو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے اس لئے اس کی خاطر داری کو سیاستدانوں نے ترجیح دی جس کے نتیجے میں یہ طبقہ موضو ع بحث بنا رہا۔ قصہ مختصر یہ کہ قومی سیاست مالداروں کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے، اعلیٰ متوسط طبقے کو ناراض نہیں کرتی (جو ویسے بھی کسی ’’جھنجھٹ‘‘ میں نہیں پڑتا) اور نچلے متوسط طبقے یا غریب طبقے کی دُہائی دیتی رہتی ہے مگر ڈرتی صرف متوسط طبقے سے ہے۔
اب دہلی الیکشن کے پیش نظر عام آدمی پارٹی بھی متوسط طبقے ہی کو رجھانا چاہتی ہے، اس نے مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی بجٹ میں اس طبقے کیلئے تعلیم، صحت، ٹیکس سے متعلق اُمور اور بزرگ شہریوں کے معاملات میں خصوصی مراعات دی جائیں، کانگریس نے بھی اسے خاص طور پر یاد کیا اور اس کیلئے ٹیکس میں رعایت کی سفارش کی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ مڈل کلاس کا اثرورسوخ آج بھی برقرار ہے۔
پون ورما نے اسے ایسے ہی ’’دی گریٹ انڈین مڈل کلاس‘‘ نہیں کہا تھا۔