وطن عزیز کے پالیسی ساز ہر دَور میں آبادی کم کرنے پر تُلے رہے۔’’ہم دو ہمارے دو‘‘ سے لے کر ’’چھوٹا پریوار، سکھی پریوار‘‘ تک اور ’’پریوار نیوجن‘‘ سے لے کر وزیر اعظم مودی کی اُن تقاریر تک جن میں کبھی انہوں نے ’’آبادی کے دھماکے‘‘ کے خلاف متنبہ کیا تو کبھی کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی ایک طرح کی حب الوطنی ہے، آبادی کے تعلق سے بی جے پی کا وہی رویہ ہے جو کانگریس کا تھا۔
وطن عزیز کے پالیسی ساز ہر دَور میں آبادی کم کرنے پر تُلے رہے۔’’ہم دو ہمارے دو‘‘ سے لے کر ’’چھوٹا پریوار، سکھی پریوار‘‘ تک اور ’’پریوار نیوجن‘‘ سے لے کر وزیر اعظم مودی کی اُن تقاریر تک جن میں کبھی انہوں نے ’’آبادی کے دھماکے‘‘ کے خلاف متنبہ کیا تو کبھی کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی ایک طرح کی حب الوطنی ہے، آبادی کے تعلق سے بی جے پی کا وہی رویہ ہے جو کانگریس کا تھا۔ مگر اسی آبادی پر، جس کا شکوہ ہے، ناز بھی کیا جاتا ہے جس کا ثبوت وزیر اعظم مودی اور اُن کی پارٹی کے دیگر لیڈروں کے بیانات سے ملتا ہے جن میں وہ ایک سو چالیس کروڑ دیش واسیوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سو چالیس کروڑ کے عدد کا اس طرح تذکرہ کیا ملک کی کثیر آبادی کو ایک اہم اثاثے کے طور پر فخریہ پیش کرنے کی کوشش نہیں ہے؟ اسی لئے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ شاید ہمارے اہل اقتدار اب تک فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ آبادی رحمت ہے یا زحمت۔
یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اُن ملکوں کے حالات کا جائزہ لینا چاہئے جو آبادی کی قلت سے پریشان ہیں ۔ ان میں سر فہرست جاپان ہے۔ جس حقیقت کو جاپان کی ’’ضعیف آبادی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے وہ دراصل آبادی کی قلت سے وابستہ ہے کیونکہ جاپان کے پالیسی سازوں کوسجھائی نہیں دے رہا ہے کہ ۷۰؍ کے اوپر اور ۸۰؍ کے اوپر کی آبادی کے ساتھ ملک کی معاشی نمو کیسے برقرار رکھی جائے۔ معاشی ترقی اُسی ملک کا مقدر بنتی ہے جس میں معاشی سرگرمیاں انجام دینے کی عمر کے لوگ زیادہ ہوں ۔ ہندوستان کو یہ اعزاز حاصل رہا اور اب بھی ہے کہ اس کی آبادی میں نوجوانوں کی کثرت ہے۔ ہم اس آبادی کے شایان شان اسکیمیں جاری نہیں کرسکے اور اس اثاثہ کا بہترین استعمال نہیں کرپائے مگر دیگر ممالک ہم پر رشک کرتے رہے اور نوجوان آبادی کو ذہن میں رکھ کر ہی ہمارے مستقبل کی بابت مثبت قیاس آرائی کرتے رہے۔ اب بھی کرتے ہیں ۔ جاپان کا حال یہ ہے کہ وہاں ہر دس میں سے ایک شہری ۸۰؍ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہے۔ ستمبر ۲۴ء میں ۱۰۰؍ سال سے زائد عمر کے ۹۵؍ ہزار لوگ تھے جن میں ۸۸؍ فیصد خواتین تھیں ۔ جاپان کی ۱۲۴؍ ملین آبادی میں ایک تہائی لوگ ۶۵؍ سال یا اس سے زیادہ کی عمر کے ہیں ۔ مطلب صاف ہے کہ جاپان پریشان ہے۔جنوری ۲۳ء میں اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم فیومیو کیشیدا نے کہا تھا کہ ’’جاپان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اُس موڑ پر آچکے ہیں جہاں پہنچ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ایک مربوط معاشرہ کے طور پر ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے یا نہیں ۔ ہمارے سامنے دو خطرات ہیں : شرح پیدائش میں کمی اور معمر ترین لوگوں کا آبادی میں تناسب۔‘‘
جاپان وہ ملک ہے جس میں لیبر کی قلت ہے۔ مزدور نہیں ملتے۔ ۲۰۲۲ء میں نصف سے زیادہ جاپانی کمپنیوں میں ۷۰؍ سے زیادہ کی عمر کے لوگ برسرکار تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں افراد بھی ہیں ، صلاحیتیں بھی ہیں ، ذہانتیں بھی ہیں اور بے روزگاری کی مار سہنے والے نوجوان بھی۔ اگر ہماری پالیسیاں روزگارکے مواقع پیدا کریں ، ہر اُس نوجوان کو جو بے روزگار ہے کام جیسا کام ملے اور اس کے سبب معیشت نئی بلندی تک پہنچے تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب ہم چاہیں گے کہ ہماری آبادی ۱۴۰؍ کروڑ سے بھی زیادہ ہو۔