• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زیادہ وقت نہیں ہوا جب فارسی بھی اپنی تھی

Updated: July 21, 2024, 1:55 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہندوستان کی تسلیم شدہ کلاسیکی زبانوں میںتمل، تیلگو، ملیالم، سنسکرت، اُڑیہ اور کنڑ شامل ہیں ۔ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء نے پالی، فارسی اور پراکرت بھاشا کو بھی خاصی اہمیت دی جس کا مقصد ان زبانوں کے ادبی سرمائے کی حفاظت ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ہندوستان کی تسلیم شدہ کلاسیکی زبانوں  میںتمل، تیلگو، ملیالم، سنسکرت، اُڑیہ اور کنڑ شامل ہیں ۔ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء نے پالی، فارسی اور پراکرت بھاشا کو بھی خاصی اہمیت دی جس کا مقصد ان زبانوں  کے ادبی سرمائے کی حفاظت ہے۔ اس سال کے اوائل میں  وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے خصوصی اعلان کیا تھا کہ فارسی کو کلاسیکی زبانوں  میں  شامل کیا جائیگا۔ 
 اس اعلان سے سب سے زیادہ مسرت اہل اُردو کو ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ زبان اُردو کے (یا اُردو اس کے) بے حد قریب ہے۔ اتنا ہی نہیں  ہندی، عربی اور ترکی کے ساتھ فارسی ان معنوں  میں  اُردو کی محسن بھی ہے کہ اس کے بے شمار الفاظ اُردو میں  ایسے رچ بس گئے ہیں  جیسے اُردو ہی کے ہوں ۔ یہ زبان عربی اور اُردو کی طرح دائیں  سے بائیں  لکھی جانے والی زبانوں  میں  سے ایک ہے، یہ بھی اس زبان سے اُنسیت کا ایک سبب ہوسکتا تھا لیکن اہل اُردو نے اس کا نوٹس نہیں  لیا، شاید اس لئے کہ اُنہیں  فارسی سے اب اُتنی رغبت نہیں  رہ گئی ہے جتنی اُن کے آباء و اجداد کو تھی۔ اگر بے اعتنائی کی یہی وجہ ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں  تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسی طرز عمل کے سبب اہل اُردو نے اُس وقت کچھ نہیں  کہا جب اُردو میڈیم کے اسکولوں  میں  فارسی کی تدریس بند کی جارہی تھی جبکہ ایس ایس سی بورڈ نے اسے زبانوں  کی فہرست سے نہیں  ہٹایا ہے۔ 
 اہل اُردو کیوں  غافل ہوگئے اس کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں  نہیں  آتی۔ اُردو کے سمجھنے اور اس کے الفاظ کی صحیح تفہیم کیلئے جس طرح عربی کا جاننا فائدہ مند ہوتا ہے اسی طرح فارسی سے واقفیت بھی معاون ہوتی ہے۔ابھی کل تک پچاسوں  فارسی فقرے اُردو معاشرہ کی روزمرہ کی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ آمدم برسر مطلب، ہر کمالے را زوالے، خود کردہ را علاجے نیست اور عقل مند را اشارہ کافیست جیسی درجنوں  ضرب الامثال عوام طور پر کہی اور سنی جاتی تھیں ۔ خوش آمدید تو آج بھی کہا، سنا اور لکھا جاتا ہے حالانکہ بہت تیزی سے اس کی جگہ ’’ویلکم‘‘ نے لے لی ہے۔
 جن شعراء کے کلام کو اہل اُردو اپنا قیمتی سرمایہ جانتے ہیں  مثلاً غالب اور اقبال کا کل اثاثہ اُن کی اُردو شاعری نہیں  ہے بلکہ ان کے کلام کا بیشتر حصہ فارسی ہے۔ اتنا ہی نہیں  جب حافظ، سعدی، رومی، فردوسی اور خیام کا ذکر آتا ہے تو ہمارے دل سے آواز آتی ہے کہ یہ ہمارے ہیں ۔ آخر وہ کیا بات ہے جو اِن شعراء سے ہمارا تعلق جوڑتی ہے؟ وہ، یہ ہے کہ اُردو محفلیں  اِن عظیم المرتبت شعراء کے ذکرسے کبھی خالی نہیں  رہیں ۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک بہت سے مراٹھی داں  بھی فارسی داں  ہوتے تھے۔ اِن میں  سیتو مادھو راؤ پاگڑی کا نام فوری طور پر ذہن میں  آتا ہے جن کی فارسی سن اہل فارسی بھی حیران رہ جایا کرتے تھے۔
 فارسی کو کلاسیکی درجہ مل جانے سے کیا ہوگا؟ ہم اس کی تفصیل میں  نہیں  جانا چاہتے کیونکہ درجہ عطا کرنے کے ساتھ اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا وہ حکومت کو کرنا یا نہ کرنا ہوگا۔ اہل اقتدار بہت سے اعلان برائے اعلان ہی کرتے ہیں ۔  کلاسیکی درجہ ملنے سے قطع نظر اہل اُردو کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خود اس خوبصورت اور مالدار زبان سے استفادہ کیلئے کیا کرسکتے ہیں ، کس طرح اپنے دروازے فارسی کیلئے دوبارہ کھول سکتے ہیں  اور اپنے بچوں  کو فارسی سکھانے پر کتنی توجہ مرکوز کرسکتے ہیں ۔ فارسی الفاظ کے اعادہ سے اہل اُردو کا اُردو ذخیرۂ الفاظ بھی وسیع ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK