رکن پارلیمان جیا بچن کی برہمی کو اِتنا مشہور کردیا گیا کہ لوگ باگ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ وہ کس بات پر برہم ہوئیں ۔ ایسا کرنا اُن کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ جیا بچن نے ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو روکا ٹوکا اور اُن کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔
رکن پارلیمان جیا بچن کی برہمی کو اِتنا مشہور کردیا گیا کہ لوگ باگ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ وہ کس بات پر برہم ہوئیں ۔ ایسا کرنا اُن کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ جیا بچن نے ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو روکا ٹوکا اور اُن کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ اجلاس میں دو مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ اُنہوں نے اُس نام (جیا امیتابھ بچن) پر اعتراض کیا جس سے اُنہیں ایوان میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ جب پہلی مرتبہ ایسا ہوا تب ہی اُنہوں نے واضح کردیا تھا کہ اُنہیں اس پر اعتراض کیوں ہے؟ اُن کا کہنا تھا کہ ایک خاتون کی اپنی شناخت ہوتی ہے، اُسے اُسی شناخت کے ساتھ کیوں نہیں دیکھا جاتا، کیا یہ ضروری ہے کہ شوہر کے نام کے ساتھ ہی اُسے پکارا جائے؟ جب اُنہوں نے یہ وضاحت کی تب صدارت کی کرسی پر ہری ونش نارائن سنگھ موجود تھے جنہوں نے اس کا مسکرا کر جواب دیا اور کہا کہ اُنہوں نے پورا نام اس لئے پکارا کہ اُن کے ریکارڈ میں نام اسی طرح درج ہے۔ اس پر بات آئی گئی ہوگئی مگر تین روز قبل جب مسند صدارت پر راجیہ سبھا کے چیئرپرسن جگدیپ دھنکر براجمان تھے، تب جیا بچن اس لئے ناراض ہوئیں کہ اُن کے خیال میں صدر نشین کا لہجہ ٹھیک نہیں تھا۔
جو لوگ ایوان کی کارروائی سے دلچسپی رکھتے ہیں ، اس حقیقت سے انکار نہیں کرینگے کہ جگدیپ دھنکر اپوزیشن کو روکنے ٹوکنے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آنے سے باز نہیں رہتے۔ جیا بچن کے اعتراض پر اُن کا ردعمل ویسا نہیں تھا جیسا ہری ونش نارائن کا تھا بلکہ اُنہوں نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہی تھا کہ آپ مشہور شخصیت (سلیبریٹی) ہیں تو ہوں گی، آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ ایکٹر، ڈائریکٹر کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔ دھنکر نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’آئی ڈونٹ کیئر‘‘ بھی کہا جس پر جیا بچن کا کہنا تھا کہ بحیثیت صدر نشین آپ کو تو ’’کیئر‘‘ کرنی ہی ہوگی، آپ بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ بہرکیف، یہ نوک جھونک جو اُسی وقت ختم ہوسکتی تھی، طول پکڑ گئی اور جیا بچن نے ایوان سے باہر آکر مطالبہ کردیا کہ دھنکر معافی مانگیں ۔ اس کے نتیجے میں اب حکمراں جماعت اور حزب ِ اختلاف میں ، کم از کم راجیہ سبھا میں ، گویا تلواریں کھنچ گئی ہیں ۔ آخر الذکر نے کہا ہے کہ وہ صدرِ راجیہ سبھا کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کریگا جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے کو بھی کم آنکنے کی کوشش کی تھی۔
اگر تحریک مواخذہ پیش کی گئی تو غالباً یہ پہلا موقع ہوگا جب صدرِ راجیہ سبھا کے خلاف یہ تحریک لائی جائیگی۔ اس سے قبل وہ بھی پہلا ہی موقع تھا جب کسی رُکن پارلیمان نے صدر نشین سے معافی کا مطالبہ کیا۔ اُسے بھی پہلا ہی موقع کہا جائیگا جب خود دھنکر نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ گزشتہ دس سال میں بہت کچھ ایسا ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ صورتحال ہماری پارلیمانی جمہوریت کیلئے نقصان دہ اور اعلیٰ پارلیمانی قدروں کے خواہشمندوں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہے۔ وہ ایوان جو عوام کے مسائل کے حل کیلئے تبادلۂ خیال اور مستقبل کے تانے بانے بُننے کیلئے ہے، جو قانون سازی اور بہترین نظیر قائم کرنے کیلئے ہے، اگر سرپھٹول کی جگہ بن گیا تو پارلیمانی جمہوریت کا خدا ہی حافظ ہے۔عرصۂ دراز سے ایوان کی کارروائی کورکرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں اتنی تلخی آگئی ہے کہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ تحریک ِ مواخذہ سے دھنکر ہٹ نہیں جائینگے مگر اس میں سبق ہے اگر وہ سبق لینا چاہیں ۔