• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جسٹس چندر چڈ ایسے نہیں ہوسکتے!

Updated: September 13, 2024, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کا وزیر اعظم کو اپنے دولت کدہ پر مدعو کرنا (اگر اُنہوں نے مدعو کیا ہے تو) ایسا عمل ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ماضی میں کبھی اس نوع کا کوئی واقعہ ہوا بھی ہوگا تو اسے راز میں رکھا گیا ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کا وزیر اعظم کو اپنے دولت کدہ پر مدعو کرنا (اگر اُنہوں  نے مدعو کیا ہے تو) ایسا عمل ہے جس کی نظیر نہیں  ملتی۔ ماضی میں  کبھی اس نوع کا کوئی واقعہ ہوا بھی ہوگا تو اسے راز میں  رکھا گیا ہوگا۔ عدلیہ اور عاملہ میں  بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے مگر اس رشتے میں  پیشہ جاتی اخلاقیات اور تعلقات کی نزاکت کو ملحوظ رکھا  جاتا ہے، اُسے ذاتی نہیں  بنایا جاتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ذاتی تعلق یا رشتہ عوام پر ظاہر ہوجائے تو افراد اور اداروں  کی غیر جانبداری مشکوک ہوتی ہے خواہ پیشہ جاتی معاملات میں  کتنی ہی غیر جانبداری برتی جائے۔
  جسٹس چندر چڈ محترم شخصیت ہیں ، اُن کے فیصلوں  میں  وہ جرأت دیکھی گئی جس کی بہت ضرورت تھی۔ الیکٹورل بونڈس اور دیگر معاملوں  میں  اُن کا فیصلہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں  ہمیشہ اُن کے غیر جانبدارانہ طرز عمل کی گواہی کے طور پر موجود رہے گا، مگر، وزیر اعظم کا اُن کے دولت کدہ پر موجود ہونا بہرحال ایسا واقعہ ہے کہ حلق سے نہیں  اُترتا۔ اس منصب پر فائز رہتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کے سامنے اُن کے والد وائی وی چندر چڈ اور دیگر کئی سابق چیف جسٹس حضرات کا پورا کریئر بطور مثال روشن ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتا تھا۔ ہم نہیں  جانتے کہ اُنہوں  نے وزیر اعظم کو مدعو کرتے وقت کیا سوچا، خود اُنہوں  نے مدعو کیا یا وزیر اعظم نے خواہش ظاہر کی یہ بھی ہم پر واضح نہیں  ہے، ہم اگر کچھ جانتے ہیں  تو صرف اتنا کہ جو ہوا وہ اچھا نہیں  لگا اور جسٹس ڈی وائی چندرچڈ سے تو اس کی بالکل بھی اُمید نہیں  تھی۔ ہمیں  اب بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسا نہیں  کرسکتے۔ موجودہ دور میں  عدلیہ جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اُن میں  اس کے وقار کو بحال رکھنے کی ہر ممکن کوشش اور اس کیلئے ہر ممکن احتیاط سے انکار نہیں  کیا جاسکتا۔ جسٹس ڈی وائی چندرچڈ جیسا مدبر احتیاط کے تقاضوں  سے ناواقف بھی نہیں  ہوسکتا۔ موجودہ دور میں  جج حضرات سبکدوشی کے فوراً بعد سیاسی جماعتوں  سے وابستہ ہورہے ہیں ، سیاسی نوازشوں  اور تحفوں  کو قبول کررہے ہیں  جیسا کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کی، ان سب کی وجہ سے عدلیہ کی غیر جانبداری پر اُٹھنے والے سوالات کو مسترد نہیں  کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھئے:کئی مسائل کا ایک مسئلہ

  ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق جسٹس الہ آباد ہائی کورٹ شری گووند ماتھر نے بتایا کہ ایک بار سابق وزیر اعظم نہرو اور جسٹس پتانجلی شاستری کا کسی تقریب میں  آمنا سامنا ہوا۔ پنڈت نہرو نے کہا کہ عاملہ اور عدلیہ میں  ہم آہنگی ہونی چاہئے لیکن جسٹس پتانجلی شاستری یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے اُتر گئے کہ ہم ایک دوسرے کے سخت ناقد اور مخالف (پربل وِرودھی) ہیں ، مجھے ہم آہنگی کی کوئی گنجائش نظر نہیں  آتی۔ ممکن ہے اِن بڑی شخصیات کے آپسی تعلقات رہے ہوں  مگر وہ پیشہ جاتی رہے ہونگے اور آئین کی روح کو سمجھتے ہوئے نبھائے جاتے ہونگے۔ جسٹس شاستری نے اسٹیج پر یکجائی کو اتفاق باور کرانا بھی گوارا نہیں  کیا۔ بعض اوقات، جج صاحبان اور سیاسی لیڈران کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے، وہ ملتے بھی ہیں  مگر فاصلے سے۔ زیر بحث معاملے میں فاصلہ کے بجائے قربت دکھائی دی جس کی تصویریں  سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ۔ جسٹس موصوف ہرگز یہ نہیں  چاہتے ہونگے مگر یہ ہوا ہے اس لئے ازحد افسوسناک ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK