• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’انڈیا‘‘ اتحاد برقرار رہے!

Updated: October 11, 2024, 2:03 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہریانہ میں کانگریس کا، حکومت بنانے کا اہل نہ بن پانا ایسی حقیقت ہے کہ جس نے پارٹی کے لئے وہ تمام مشکلات کھڑی کردی ہیں جو کہ عموماً مخلوط سیاست میں لازماً درپیش ہوتی ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ہریانہ میں  کانگریس کا، حکومت بنانے کا اہل نہ بن پانا ایسی حقیقت ہے کہ جس نے پارٹی کے لئے وہ تمام مشکلات کھڑی کردی ہیں  جو کہ عموماً مخلوط سیاست میں  لازماً درپیش ہوتی ہیں ۔ ابھی کانگریس اپنی ’’کم بہتر کارکردگی‘‘ کا صحیح ڈھنگ سے تجزیہ بھی نہیں  کرپائی تھی کہ اکھلیش یادو نے کوئی قدم اُٹھالیا، سنجے راؤت نے کچھ کہہ دیا، اروند کیجریوال نے کوئی اور راہ اپنالی اور عمر عبداللہ نے احتساب کی دعوت دے دی۔ اِس میں  کچھ نیا نہیں  ہے۔ الیکشن میں کسی پارٹی کی کارکردگی توقع کے مطابق نہ ہو تو حلیف جماعتوں  کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ بڑی پارٹی سے چھوٹا حصہ پانے کے روادار نہیں  رہ جاتے، بڑے حصے کی تمنا کرنے لگتے ہیں  اور دباؤ ڈالنے کی خاطر یہ حربہ آزماتے ہیں ۔ سیاست میں  یہ فطری طریق کار ہے۔ کون کتنی سیٹیں  دے سکتا ہے اور کون کتنی سیٹوں  پر اپنی کامیابی کو یقینی بناسکتا ہے یہ سیٹوں  کی تقسیم کے وقت تمام حلیف جماعتوں  کو طے کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ تمام جماعتیں  اسی لئے ساتھ آئی ہیں  کہ اُنہیں  مشترکہ دشمن سے لڑنا ہے اس لئے زیادہ پانے کی خواہش کے باوجود اُنہیں  کچھ نہ کچھ یا بہت کچھ چھوڑنا چاہئے۔ جب تک قربانی کا یہ جذبہ نہیں  ہوگا تب ہی اتحاد کمزور ہی کہلائے گا، مستحکم نہیں  کہلا سکتا۔ یہ مرحلہ جتنی سمجھداری اور افہام و تفہیم کے ذریعہ طے کیا جائے اُتنا بہتر ہے۔
 ہریانہ کی ہار کے بعد کانگریس کیلئے دشواریاں  پیدا ہوئی ہیں  مگر ان سے نمٹنے کی ذمہ داری تنہا کانگریس کی نہیں  ہے بالخصوص ایسے وقت میں  جبکہ وہ ’’انڈیا‘‘ کی قائد پارٹی ہے۔ کانگریس کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اُسی صورت حال کا سامنا دیگر جماعتوں  کو بھی ہوسکتا ہے اس لئے کانگریس کو کانگریس نہ سمجھتے ہوئے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی ایک اہم اور مضبوط کڑی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ کئی ریاستوں  میں  جہاں  اس کا راست مقابلہ بی جے پی سے ہوتا ہے وہاں  میدان میں  کون اُترے گا؟ جو بھی اُترے گا اور جتنی بھی پارٹیاں  قسمت آزمائینگی سب کو ناکوں  چنے چبانے پڑیں  گے۔ اس لئے انڈیا اتحاد کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ کانگریس کے ساتھ وہ طرز عمل نہ اختیار کیا جائے جو عموماً سیاسی جماعتیں  ایک دوسرے کے ساتھ کرتی ہیں ۔ مگر ان کی جانب سے مفاہمت اور فراخدلی کا مظاہرہ ہو اور کانگریس کی جانب سے غیر ضروری دباؤ ڈالا جائے یا اُسے اپنی برتری اور بالادستی کا زعم ہو تو یہ بھی غلط ہوگا۔ کانگریس کو بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہئے جس کی سب سے بڑی ذمہ داری چھوٹے بھائیوں  کی فکر کرنا ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھ’ئےہریانہ: ہار جیت اور کارکردگی

 بی جے پی چاہتی ہے کہ انڈیا اتحاد بکھر جائے۔ ایسے میں  اتحاد میں  شامل پارٹیوں  کو چاہئے کہ انتشار کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیں ۔بی جے پی کے خلاف انڈیا اتحاد کی کامیابی بہت اہم اور ضروری ہے مگر یہ تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اتحاد برقرار رہے۔ اس کا برقرار رہنا بھارتیہ جنتا پارٹی سے نمٹنے اور اس پر سبقت حاصل کرنے کی اولین شرط ہے۔ کسی کو کسی زعم میں  نہیں  رہنا چاہئے۔ زیادہ سیٹیں  لے کر کم پر جیتنے سے کہیں  زیادبہتر ہے کہ کم سیٹیں  لے کر تمام کو بڑے فرق سے جیت لیا جائے۔ ہریانہ میں  کانگریس کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہونے کے باوجود حسب توقع نہیں  ہے مگر اسے ’’ہار‘‘ کے طور پر پیش کرکے متعلقہ پارٹیاں  اتحاد ہی کو نیچا دکھا رہی ہیں ۔ اس سے بچنا اور یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی ہر قیمت پر مہاراشٹر جیتنا چاہے گی اس لئے اتحاد کو چاہئے کہ ہر قیمت پر ریاست کو بچائے۔

haryana Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK