• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرکزی کابینہ میں مہاراشٹر

Updated: June 11, 2024, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان جن ریاستوں میں ہوا، اُن میں سے ایک مہاراشٹر ہے۔ انتخابی نتائج سے قبل، مبصرین نے یوپی کو موضوع بحث نہیں بنایا، کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ملک کی سب سے زیادہ سیٹوں والی ریاست میں بی جے پی کی سیٹیں نصف ہوجائینگی مگر مہاراشٹر کے بارے میں بیشتر مبصرین کو ’’مہایوتی‘‘ کے خسارہ کا پورا پورا احساس تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان جن ریاستوں  میں  ہوا، اُن میں  سے ایک مہاراشٹر ہے۔ انتخابی نتائج سے قبل، مبصرین نے یوپی کو موضوع بحث نہیں  بنایا، کسی کے وہم و گمان میں  نہیں  تھا کہ ملک کی سب سے زیادہ سیٹوں  والی ریاست میں  بی جے پی کی سیٹیں  نصف ہوجائینگی مگر مہاراشٹر کے بارے میں  بیشتر مبصرین کو ’’مہایوتی‘‘ کے خسارہ کا پورا پورا احساس تھا۔ اِس اتحاد کے نمایاں  چہروں  میں  دیویندر فرنویس، ایکناتھ شندے اور اجیت پوار تھے جن کی ملی جلی طاقت اور اتحاد کو حاصل بی جے پی کی طاقتور مرکزی قیادت کی سرپرستی بھی این ڈی اے کی مہاراشٹر اکائی یعنی مہایوتی کو ذلت آمیز شکست سے نہیں  بچا سکی۔
  فرنویس کا تعلق ودربھ سے ہے جہاں  بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ناگپور سے نتن گڈکری اور آکولہ سےا نوپ سنجے دھوترے کے علاوہ پارٹی اس خطے میں  کوئی سیٹ نہیں  جیت سکی جبکہ فرنویس ودربھ کے اور نتن گڈکری بھی ودربھ کے۔ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا صدر دفتر بھی ودربھ میں  واقع ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس خطے میں  ریلیاں  بھی خوب کی تھیں ۔ 
 شندے کا تعلق تھانے سے ہے۔ شیو سینا سے الگ ہونے والے اُن کے گروہ نے اس گمان میں  پارٹی توڑی تھی کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت کی سرپرستی کے سبب ۴۸؍ سیٹوں  والی اس ریاست میں  بڑی کامیابی حاصل کرلینگے مگر شندے، وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود نہ تو اپنی پارٹی کو قابل قدر کامیابی دلوا سکے نہ ہی اپنی موجودگی سے بی جے پی کا بھلا کرسکے۔ اُن کی پارٹی نے ۱۵؍ سیٹوں  پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا مگر صرف ۷؍ سیٹوں  پر کامیابی اُن کا مقدر بنی۔ 
 اجیت پوارکا تعلق بارہ متی سے ہے اور مہاراشٹر کی دیگر سیٹوں  کو تو جانے ہی دیجئے جو اُن کے حصے میں  آئیں ، اجیت پوار بارہ متی سے اپنی اہلیہ (سونیترا پوار) کو بھی کامیابی نہیں  دلوا سکے (جو شرد پوار کی صاحبزادی اور سٹنگ ایم پی سپریہ سُلے سے ڈیڑھ لاکھ ووٹوں  سے ہار گئیں )۔ اجیت پوار گروپ کا صرف ایک اُمیدوار فتح سے ہمکنار ہوا۔ رائے گڑھ سے سنیل تٹکرے الیکشن کامیاب نہ ہوئے ہوتے تو اجیت پوار کے پاس برائے نام بھی کچھ نہ رہ جاتا۔
 اس ناکامی کا اثر مرکزی کابینہ میں  مہاراشٹر کی نمائندگی پر بھی پڑا۔شندے اور اجیت پوار کو اپنی پارٹیاں  چھوڑ کر اور توڑ کر بی جے پی سے ہاتھ ملانے کا بڑا انعام مل سکتا تھا۔ وہ نہیں  ملا۔ شندے گروپ کو کابینہ میں  صرف ایک اور وہ بھی جونیئر درجے کی نشست ملی۔ ایسی ہی نشست اجیت پوار گروپ کو دی جارہی تھی جس پر یہ گروپ راضی نہیں  ہوا۔اب دونوں  ہی گروہ اپنی خفت مٹانے کیلئے کابینہ کی توسیع کا حوالہ دے رہے ہیں  مگر کابینہ میں  توسیع ہوئی تو کتنی ہوگی اور جگہ دی گئی تو کس کس کو دی جائیگی، یہ اہم سوال ہے جس کا جواب شندے اور پوار بھی جانتے ہونگے۔ 
 خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر کی دو اہم پارٹیوں  کو شکست و ریخت سے دوچار کرکے، اُدھو ٹھاکرے حکومت کو بے دخل کرکے اور شندے نیز اجیت پوار پر غیر معمولی بھروسہ کرکے مودی اور امیت شاہ کو کچھ نہیں  ملا بلکہ اُن کی شبیہ خراب ہوئی اور مہاراشٹر میں  سیٹوں  کا زبردست نقصان اُٹھانا پڑا۔
 عنقریب یہاں  اسمبلی الیکشن ہونا ہے۔ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران چاہے جتنی بار ’’وی‘‘ کا نشان بنائیں ، اُنہیں  مہاراشٹر میں  ’’وی‘‘ (وِکٹری) نہیں  ملنے والی ! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK