مہاراشٹر کے انتخابی نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ لوک سبھا میں کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیو سینا (اُدھو) کی شاندار کامیابی سے یہ اُمید بندھ گئی تھی کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج ایسے ہی مثبت رجحان کے حامل ہونگے مگر نتائج کچھ اس طرح پلٹے ہیں کہ سیکولر محاذ کی تینوں پارٹیاں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی ہیں ۔
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ لوک سبھا میں کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیو سینا (اُدھو) کی شاندار کامیابی سے یہ اُمید بندھ گئی تھی کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج ایسے ہی مثبت رجحان کے حامل ہونگے مگر نتائج کچھ اس طرح پلٹے ہیں کہ سیکولر محاذ کی تینوں پارٹیاں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی کسی دوسری پارٹی کو شکست کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی۔اس میں شک نہیں کہ ایک زمانے تک مہاراشٹر کانگریس کا گڑھ تھا اور ایک زمانے تک شیو سینا اور این سی پی کو اس ریاست میں جنم لینے والی پارٹی کہا اور سمجھا جاتا رہا جن کی ساکھ کافی مضبوط ہے مگر نہ تو کانگریس اپنے پرانے قلعے کو محفوظ رکھ سکی نہ ہی شیو سینا اور این سی پی، جو تقسیم کے بعد کمزور ہوگئی ہیں ، اپنا وقار بحال رکھ سکیں ۔ دونوں ہی پارٹیاں اپنے ساتھ ہونے والی ’’غداری‘‘ کو سیاسی بیانیہ میں تبدیل کرکے رائے دہندگان میں اپنے لئے جذبۂ ہمدردی نہیں پیدا کرسکیں ۔ جو تصویر اُبھری ہے اُس سے تو الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق ہورہی ہے جس نے شیو سینا اور این سی پی کے منحرف دھڑو ں کوبڑی حد تک اصل پارٹی مان لیا تھا۔ ہمیں تو ریاست کے سب سے سینئر ، بزرگ اور تجربہ کار سیاستداں شرد پوار پر تعجب ہورہا ہے جنہیں ہر خاص و عام ’’چانکیہ‘‘ مانتا رہا ہے۔ کیا پوار صاحب نے اہل مہاراشٹر کا اعتماد کھو دیا ہے؟ عوام کو سمجھنے میں ناکام ہیں ؟ انتخابی نتائج سے یہی ظاہر ہے۔ شیو سینا (اُدھو) کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، وہ اسمبلی میں ہوا تھا اور اسمبلی سے متعلق تھا اس لئے لوک سبھا سے زیادہ اسمبلی انتخابات پر اس کا اثر پڑنا چاہئے تھا مگر اب جو ہوا اس سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اگر کسی پارٹی کے اراکین انحراف کا رویہ اپنائیں اور کسی دوسری پارٹی کے ساتھ ساز باز کرلیں تو اصل پارٹی کو ووٹ دینے والے بھی اُس دوسری پارٹی کے ہمنوا ہوجائینگے اور اپنے ووٹوں کو منتقل کردینگے؟ اگر یہی رائے دہندگان کا فیصلہ ہے تو یہ جمہوری قدروں کیلئے بڑا سوال ہے۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلتی رہیں اور عوام کا فیصلہ بڑی مچھلیوں کے حق میں آتا رہے تو انحرافی رجحان کو تقویت ملے گی اور بہت سی پارٹیوں کو بقاء کا مسئلہ لاحق ہوگا۔ مہاراشٹر کے رائے دہندگان نے شیو سینا اور این سی پی کے منحرف گروپوں کو جس طرح نوازا ہے، وہ حیرت انگیز ہے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب تک بھی ناقابل یقین ہے۔
یہ بھی پڑھئے:دو ’وارنٹ
مہاراشٹر کی سیاست میں ، اپوزیشن کی ایک ہی پارٹی تھی کانگریس جس میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی۔ اُمید کی جارہی تھی کہ کانگریس کی کارکردگی لوک سبھا ۲۴ء کی کارکردگی کے خطوط پر ہو گی مگر محض چھ ماہ میں کانگریس کی مقبولیت کو جیسے گھن لگ گیا۔ برسوں تک مہاراشٹر پر تنہا حکومت کرنے والی اس پارٹی کی کارکردگی اب تک کی سب سے خراب کارکردگی ہے۔ پرتھوی راج چوہان، بالا صاحب تھورات، یشومتی ٹھاکور، مانک راؤ ٹھاکرے اور عارف نسیم خان جیسے اس کے پختہ کار لیڈروں کا ہارنا بہت کچھ کہتا ہے۔ خود نانا پٹولے مشکل سے جیتے۔ جیت کا فرق بھی بہت معمولی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ کے ایک فرزندکو کامیابی ملی مگر دوسرے کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کیلئے مہاراشٹر کی ہار اس قدر افسوسناک ہے کہ اس کے آگے جھارکھنڈ کی جیت اور وائناڈ کی تاریخی فتح پھیکی پڑ گئی ہے۔ پرینکا گاندھی ایک طرف بڑی جیت اور دوسری طرف بڑی ہار کے درمیان کانگریس کے توازن کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہونگی جو بار بار بگڑ رہا ہے۔