مہاراشٹر کا اسمبلی الیکشن کبھی اتنا منتشر نہیں تھا جتنا کہ اس بار ہے۔ اس انتشار کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ، ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کا غیر جمہوری رجحان اس کا ذمہ دار ہے۔ بکھرے بکھرے سے اس منظرنامے نے رائے دہندگان کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کیلئے فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے۔
مہاراشٹر کا اسمبلی الیکشن کبھی اتنا منتشر نہیں تھا جتنا کہ اس بار ہے۔ اس انتشار کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ، ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کا غیر جمہوری رجحان اس کا ذمہ دار ہے۔ بکھرے بکھرے سے اس منظرنامے نے رائے دہندگان کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کیلئے فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ انتخابی نشان کا بھی مسئلہ ہے۔ اسے صحیح طریقے سے حل کرنے میں انتخابی کمیشن نے دلچسپی نہیں لی۔ لوگ آج بھی ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کا نشان تیر کمان اور این سی پی (شرد پوار) کا نشان گھڑی ہی سمجھتے ہیں ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی غچہ کھا جائیں تو عجب نہیں ۔ بی جے پی نے پارٹیاں توڑ کر جو کچھ حاصل کرنا چاہا اس کا حصول ممکن نہیں تھا مگر اس کی وجہ سے سیاسی ماحول کا بگاڑ جمہوریت کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔ پورے مہاراشٹر کی شاہراہوں پر پولیس کی تفتیشی ٹیمیں تعینات ہیں جو آتی جاتی گاڑیوں کو روک روک کر معائنہ کر رہی ہیں مگر کیا انتخابی بدعنوانیاں رک رہی ہیں ؟ تھانے پولیس کا اپنے ہی محکمے کے فلائنگ اسکواڈ کے خلاف کارروائی کرنا، جس نے ایک تاجر سے پچاسی ہزار روپے بطور رشوت وصول کئے، بہت کچھ بیان کرتا ہے۔
ماحول کی مزید خرابی کا اندیشہ ان سیاسی اور انتخابی نعروں کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے جو مہاراشٹر کے سماجی تانے بانے کو سمجھے بغیر لگائے جا رہے ہیں ۔ وہ قابل نفریں نعرہ جو یوپی میں لگایا گیا، اس خیال کے تحت مہاراشٹر میں بھی بلند کیا گیا کہ اس کی وجہ سے یہاں بھی کچھ فائدہ ہوجائے گا۔ یہ شدید قسم کی غلط فہمی ہے۔ اس ریاست نے ناگپور میں آر ایس ایس کا صدر دفتر ہونے کے باوجود اس کی آئیڈیالوجی کو قبول نہیں کیا جس کا نتیجہ ہے کہ اس سرزمین پر بی جے پی کو کبھی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کا اعزاز نہیں ملا۔ سوچئے اس کا کتنا قلق ہوگا آر ایس ایس اور بی جے پی کو۔ اگر اس کو سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کا موقع ملا بھی تو محض اس لئے کہ اس نے شیو سینا سے دوستی گانٹھ لی تھی ورنہ ممکن تھا کہ جس طرح کسی زمانے میں اس کی پارلیمنٹ میں صرف دو سیٹیں تھیں اسی طرح مہاراشٹر میں اب بھی اس کا دو عدد تک پہنچنا دوبھر ہوجاتا۔ پارٹیاں توڑ کر اور ناجائز اور غیر جمہوری طریقے سے اقتدار میں آجانے کے باوجود کیا بی جے پی کے ارباب اختیار بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کو کیا اور کتنا فائدہ پہنچایا؟
یہ بھی پڑھئے:فن خطابت اور موجودہ دَور
اس پورے معاملے میں سب سے بڑی آزمائش رائے دہندگان کی ہے۔ حقیقی جمہوریت کو وہی یقینی بنا سکتے ہیں ۔ انہیں نہ تو گمراہ ہونا ہے نہ ہی تقسیم ہونا ہے۔ نہ تو لالچ میں پڑنا ہے نہ ہی کسی فوری فائدے کی سوچنا ہے۔ ان کی نظر وسیع تر مفاد پر ہونی چاہئے کہ یہ سیکولر ریاست سیکولر ہی رہے گی، اس کا سماجی تانا بانا ویسا ہی رہے گا جیسا ہے، اس کے عوام ہمیشہ سے متحد رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ اس کیلئے انہیں سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سو فیصد ووٹنگ ہو۔ جمہوریت عوام کے جمہوری جوش و خروش سے استحکام پاتی ہے،۔ اس کیلئے ان عناصر پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے جوغیر جمہوری حربے آزما کر جمہوریت کی روح فنا کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔