• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

منی پور کو سنبھالنا ہوگا!

Updated: November 15, 2024, 1:55 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

منی پور کے عوام اٹھارہ ماہ بعد بھی سکون کا سانس لینے کے قابل نہیں ہیں ۔ اس مختصر سی ریاست کا سنبھل نہ پانا ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کےطرز عمل پر بھی گہرا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 منی پور کے عوام اٹھارہ ماہ بعد بھی سکون کا سانس لینے کے قابل نہیں  ہیں ۔ اس مختصر سی ریاست کا سنبھل نہ پانا ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کےطرز عمل پر بھی گہرا  سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ہمیں  یاد ہے ایوان ِ پارلیمان میں  وزیر اعظم مودی نے کہا تھا ’’ایک اکیلا سب پر بھاری‘‘۔ اس جملے کی آبرو رکھنا ضروری تھا مگر ہم دیکھتے ہیں  کہ یہ ریاست سفاکانہ تشدد کے کئی مرحلوں  سے گزرنے کے باوجود اب بھی جوں  کی توں  حالت میں  ہے۔ حالیہ واردات جری بام ضلع کی ہے جہاں  کے بوروبیکرا پولیس اسٹیشن پر شدت پسندوں  نے حملہ کیا۔ پولیس کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق حملہ آور وَردی پہنے ہوئے تھے اور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے۔ اس اطلاع کے پیش نظر پہلا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان کے پاس وردی اور جدید ترین اسلحہ کہاں  سے آیا؟ کیا یہ وہی اسلحہ ہے جو شدت پسندوں  نے سرکاری اسلحہ خانے سے لو‘ٹا تھا یا اس کے حصول کا ذریعہ کچھ اور ہے؟ 
 منی پور کے بہت سے مسائل میں  سے ایک یہ ہے کہ یہاں  سے خبریں  نکلتی نہیں  ہیں ۔ وہیں  دَب کر رہ جاتی ہیں ۔ اکثر اوقات انٹرنیٹ بند رہتا ہے جس کی وجہ سے خبروں  کی ترسیل رُک جاتی ہے۔ جری بام ضلع کی مذکورہ واردات میں  جو ۱۱؍ شدت پسند ہلاک ہوئے اُنہیں  گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا۔ اگر تلاشی مہم، جاری رہنے کے باوجود کامیاب نہیں  ہوپاتی ہے تو اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ ا سکی وجہ کیا ہے؟ آخر کب تک یہاں  کے عوام خوف اور دہشت کی فضا میں  سانس لیتے رہیں  گے اور بقیہ ہندوستان اپنے معمولات میں  گم رہے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو؟
 مرکزی حکومت کیلئے لازم تھا کہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ اور اُن کی حکومت کو فوراً برخاست کیا جاتا مگر بھیانک تشدد کے بے شمار واقعات کے باوجود مرکز نے بیرن سنگھ کو برخاست نہیں  کیا جن پر ایک طبقے کے تئیں  جانبدار ہونے کا الزام ہے۔ ایسا وزیر اعلیٰ جس کی جانبداری موضوع بحث ہو اُس سے افہام و تفہیم کے ذریعہ تینوں  طبقوں  (کوکی، میتئی اور ناگا) کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانا کیونکر ممکن ہوگا؟ اگر مرکز یہ سمجھ رہا ہے کہ طاقت کے ذریعہ تشدد کو روکا جاسکتا ہے تو یہ غیر سیاسی منطق ہے مگر اس ذریعہ سے بھی حالات کو معمول پر نہ لا پانا سراسر ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جس کیلئے حکومت جوابدہ ہے اور اسے جواب دینا چاہئے خواہ وہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی۔ 

یہ بھی پڑھئے: نہرو کی پالیسیاں آج بھی جاری ہیں

 اس میں  شک نہیں  کہ منی پور میں  حالات پہلے بھی خراب ہوئے مگر جب جب بھی ایسا ہوا اُسے سنبھال لیا گیا۔ خواہ وہ کوکیوں  اور ناگاؤں  کے درمیان ۱۹۹۲ کی بھڑنت ہو یا کوکیوں  اور پانگلوں  کے درمیان کا وہ تنازع جو ۱۹۹۳ء میں  ہوا تھا، سابقہ حکومتوں  نے خیرسگالی اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جو ایسے حالات میں  ازحد ضروری ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں  ہوسکتا کہ ایکدوسرے کے خلاف صف آراء اور ایکدوسرے سے نجانے کب کی دشمنی نکالنے کے درپے طبقات کو اعتماد میں  لینے کی کوشش ہی نہ ہو اور اِس انتظار میں  رہا جائے کہ امن قائم ہوجائیگا! کیسے ہوگا؟ 
 منی پور کا مسلسل آگ کی لپٹوں  میں  رہنا اور منافرت کے شعلوں  کا وقفے وقفے سے بھڑکنا کسی کے مفاد میں  نہیں  ہے۔اِس کی وجہ سے پوری دُنیا میں  ملک کا نام خراب ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے وشو گرو بننے کے دعوؤں  کی قلعی کھل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشی ترقی کا منصوبہ منہ چڑا رہا ہے۔ اگر ارباب اقتدار خاموش تماشائی بنا رہے تو یہ منی پور کے عوام کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔

manipur Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK