Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

منی پور، پرانا وزیر اعلیٰ اور ممکنہ نیا وزیر اعلیٰ

Updated: February 12, 2025, 1:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے استعفےٰ کیوں دیا؟نہ دیتے۔ اب تک نہیں دیا تھا تو کس نے کیا کرلیا؟ حکمراں جماعت میں اگر کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو اُن کی جگہ لے سکے تو موصوف بالکل اُسی طرح برقرار رہ سکتے تھے جس طرح مئی ۲۳ء سے اب تک رہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے استعفےٰ کیوں  دیا؟نہ دیتے۔ اب تک نہیں  دیا تھا تو کس نے کیا کرلیا؟ حکمراں  جماعت میں  اگر کوئی ایسا لیڈر نہیں  ہے جو اُن کی جگہ لے سکے تو موصوف بالکل اُسی طرح برقرار رہ سکتے تھے جس طرح مئی ۲۳ء سے اب تک رہے۔ اس دوران تو ایک ڈراما بھی ہوا تھا۔ استعفےٰ نامہ اُن کے ہاتھوں  سے چھین کر پھاڑ دیا گیا تھا۔ یہی ڈراما پھر کھیلا جاسکتا تھا۔ ایسا بہت کچھ ممکن تھا، انہوں  نے خود پر یہ جبر کیوں  کیا؟ کم و بیش ساڑھے چھ سو دن تسلسل کے ساتھ استعفے کا مطالبہ ہوتا رہا مگر اُن کے کانوں  پر جوں  نہیں  رینگی تو اب کیوں  رینگ گئی؟ نظم و نسق نہیں  سنبھل رہا تھا اور منی پور کی شورش کی وجہ سے پوری دُنیا میں  ملک کی بدنامی ہورہی تھی تو کیا ہوا، اب بھی ہوتی! عہدۂ وزارت اعلیٰ کی پامالی بھی ہو رہی تھی اور ارباب اقتدار کو اس کی فکر نہیں  تھی تو اس پامالی کا کوئی توڑ نکال لیا جاتا، استعفےٰ دینا کیا ضروری تھا۔ اگر اُنہوں  نے ازخود یہ قدم نہیں  اُٹھایا بلکہ کسی کا ’مشورہ‘ قبول کیا ہے تو مشورہ دینے والوں  کو اب یہ بات کیوں  سوجھی، پہلے کیوں  نہیں  سوجھی تھی؟ 
 ایسے کئی سوالوں  کا جواب نہیں  ملتا۔ آئندہ بھی نہیں  ملے گا۔ موجودہ سیاست میں  یا تو سوالات نہیں  ہیں  اور اگر ہیں  تو اُن کے جوابات نہیں  ہیں ۔ اگر کچھ جوابات ہیں  بھی تو وہ بغیر سوال کے ہیں  یعنی کسی نے دریافت ہی نہیں  کیا اور جوابات حاضر کردیئے گئے۔ منی پور سراپا سوال تھا اور اب بھی ہے۔ اس کا جواب ندارد تھا اور اب بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکمراں  جماعت یہ کہتی ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں  کہا ہے، کہ منی پور کی شورش نئی نہیں  ہے اور اس سے قبل بھی ایسے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں  تو اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ وہ تدابیر کیوں  اختیار نہیں  کی گئیں  جن کے ذریعہ ہر بار تشدد کی روک تھام کی گئی اور دونوں  طبقات (کوکی اور میتئی) کو ایک میز پر لاکر اُن میں  افہام و تفہیم کے ذریعہ حالات کو قابو میں  لایا گیا؟ یہ سوال جن لوگوں  نے کیا اُن کا نوٹس تک لیا گیا جواب دینا تو دور کی بات ہے۔ یہ سوال غیر فطری نہیں  کہ اہل منی پور پر قیامت گزر جانے کے باوجود وزیر اعظم مودی نے ایک بار بھی وہاں  کے دورے کی ضرورت کیوں  محسوس نہیں  کی مگر اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں  ہے۔ آئندہ کبھی جواب مل جائیگا اس کی توقع بھی فضول ہے۔ فضول اس لئے کہ اب سے پہلے کے کئی سوال ہنوز تشنہ ٔ جواب ہیں  خواہ وہ نوٹ بندی سے متعلق ہو کہ اس سے کیا حاصل ہوا یا تین طلاقوں  سے متعلق ہو کہ اس سلسلے میں  قانون بنا کر مسلم مردوں  کو کیوں  سزا دی گئی۔
 کیا ہی اچھا ہوتا اگر بیرین سنگھ کو اب تک نہ ہٹانے والی بی جے پی اُنہیں  اب بھی نہ ہٹاتی مگر اُن سے وہ کام لیتی جو اُنہیں  بروقت کرنا چاہئے تھا۔ اُن کے ہٹنے سے آخر کیا فرق پڑ جائیگا اگر حالات میں  کوئی فرق نہ آیا؟ کل ہی کی خبر ہے کہ بندوق کی نوک پر وہاں  کے سینئر صحافی یم بیم لابا کا اغوا کرلیا گیا۔ یہ ثبوت ہے اس بات کہ حالات ہنوز قابو میں  نہیں  ہیں ۔ انہیں  کے پیش نظر اگر زیر بحث استعفے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو لامحالہ اُن کی جگہ کسی اَور کو موقع دیا جائیگا۔ اس میں  کوئی قباحت نہیں  ہے مگر اس کی ضمانت کون دیگا کہ نیا وزیر اعلیٰ پرانے وزیر اعلیٰ سے مختلف ہوگا اور اُس کی اولین ترجیح قیام امن ہوگی؟ یہ بات مرکز کو بھی سمجھ لینی چاہئے کہ منی پور امن کا اور منی پور والے سکون کے متلاشی ہیں  اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خونریزی میں  مبتلا گروہوں  کو راہ راست پر لانے میں  مزید تاخیر نہ کی جائے۔ حکومت کو جان لینا چاہئے کہ وہ اپنی ناکامی کو چھپانے میں  زیادہ ایکسپوز ہورہی ہے۔

manipur Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK