• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بدعنوانی کے پہاڑ اور طلبہ کا مستقبل

Updated: June 23, 2024, 1:47 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

کچھ واقعات تلخ ہونے کے باوجود ضروری ہوتے ہیں ، آئینہ دکھانے کیلئے ۔ ۲۰۱۴ء میں برسراقتدار آنے والی بی جے پی جن موضوعات کے ذریعہ عوامی رائے پر اثرانداز ہونے اور اُسے ہموار کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اُن میں سے ایک تھا بدعنوانی (کرپشن)۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 کچھ واقعات تلخ ہونے کے باوجود ضروری ہوتے ہیں ، آئینہ دکھانے کیلئے ۔ ۲۰۱۴ء میں  برسراقتدار آنے والی بی جے پی جن موضوعات کے ذریعہ عوامی رائے پر اثرانداز ہونے اور اُسے ہموار کرنے میں  کامیاب ہوئی تھی اُن میں  سے ایک تھا بدعنوانی (کرپشن)۔ بی جے پی نے سابقہ حکمراں  جماعت، کانگریس کو غیر معمولی طور پر بدعنوان قرار دینے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی تھی، اس کے ساتھ ہی وعدہ کیا تھا کہ اگر اُسے اقتدار میسر آیا تو بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گی، مگر، پورا ملک جانتا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ تو دور رہا، اُلٹا اس کے پھیلاؤ میں  اضافہ ہوگیا۔ 
 نیٹ (این ای ای ٹی) کے سلسلے کی جس بدعنوانی کا انکشاف گزشتہ دِنوں  ہوا وہ اپنے آپ میں  کافی افسوسناک ہے کیونکہ لاکھوں  طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ بھانڈا نہ پھوٹتا تو راوی چین ہی چین لکھتا، تیسری مرتبہ اقتدار میں  آنے والی حکومت یہی تاثر دیتی رہتی کہ اس نے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے بڑے قدم اُٹھائے ہیں  اور وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے اپنے وعدہ پر اُتنی ہی سختی کے ساتھ آج بھی قائم ہے جتنی کہ ۲۰۱۴ء میں  تھی۔ نیٹ (این ای ای ٹی) کا کچا چٹھا باہر آنے کی وجہ سے سسٹم کے اُس ناسور کی نشاندہی ہوسکی ہے جو ایک مضبوط مافیا کی پناہ گاہ بن گیا ہے اور جس کے ذریعہ لاکھوں  ذہین اور محنتی طلبہ کا مستقبل پیسوں  کے کھیل کی وجہ سے غارت ہورہا ہے۔
  پیسوں  ہی کا کھیل پرچہ لیک کرواتا ہے، غیر مستحق کو مستحق کے درجے پر فائز کرتا ہے، خود ساختہ میرٹ لسٹ منظر عام پر لاتا ہے، نقل نویسی کو فروغ دیتا ہے اور اسی نوع کے ہزار گل کھلاتا ہے۔ ویسے جس مافیا کی یہاں  بات کی جارہی ہے، اس کی اب نشاندہی ہوئی ہو ایسا نہیں  ہے۔ اس سے قبل یہ الگ الگ روپ میں  موجود رہا ہے۔ بعض مقامات پر نقل نویسی بینڈ باجے کے ساتھ جاری رہتی ہے اور کوئی اسے روک نہیں  پاتا۔ بعض جگہوں  پر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور کے مصداق کورس کی فیس بتائی کچھ جاتی ہے اور وصول کچھ جاتی ہے۔ یہ سب ملک کے عوام کیلئے نیا نہیں  ہے۔ اس سے قبل ’’ویاپم‘‘ گھوٹالے کی خبریں  ملک بھر کے اخبارات اور نیوز چینلوں  پر چھائی رہیں  مگر سسٹم کی سنگین تر خامیوں  پر سسٹم ہی  پردہ ڈالنے میں  کامیاب ہوا اور اب وہ گھوٹالہ تذکرہ ہی کیلئے رہ گیا ہے۔ کچھ عجب نہیں  کہ کل نیٹ بھی تذکروں  اور بحثوں  میں  جگہ پانے کے قابل رہ جائے اور ایسے ہی کسی اور گھوٹالے تک سناٹا طاری رہے۔ 
 پہلے سے زیادہ مضبوط اپوزیشن کے تیور دیکھتے ہوئے حکومت نے ’’پبلک اکزامنیشن (پریوینشن آف اَن فیئر مینس) ایکٹ ۲۰۲۴ء‘‘ کے ذریعہ اپوزیشن کو ٹھنڈا کرنے اور عوامی برہمی کی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش تو کی ہے مگر اس سے کسی بڑے فائدہ کی اُمید نہیں ۔ قانون بنا دینے سے قانون کے نفاذ کی ضمانت نہیں  ملتی۔ محکمۂ سراغرسانی سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ جب کئی کئی لاکھ روپوں  کے بدلے امتحانی پرچہ لیک کیا گیا، تب اسے کچھ بھی بھنک نہیں  لگی تھی؟ یہی محکمہ جرم کو اس کے ارتکاب سے پہلے روک سکتا ہے۔ہم وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کرتے ہیں ، اپوزیشن لیڈروں  کے خلاف کارروائی بھی کرتے ہیں  مگر تعلیمی مافیا کا تعاقب نہیں  کرتے جبکہ سرکاری محکمے چاہیں  تو بہت کچھ یا سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے پختہ سیاسی عزم کے علاوہ کچھ درکار نہیں ۔ مسئلہ یہی ہے۔ وہ عزم کہاں  سے لائیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK