ریاستی ارباب اقتدار نے یقین تو دلایا ہے کہ اس سال اپریل میں میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کاؤنسلوں اور میونسپلٹیوں کے انتخابات منعقد کرائے جائینگے مگر کوئی حتمی تاریخ اب تک بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ ا
EPAPER
Updated: January 22, 2025, 1:37 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ریاستی ارباب اقتدار نے یقین تو دلایا ہے کہ اس سال اپریل میں میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کاؤنسلوں اور میونسپلٹیوں کے انتخابات منعقد کرائے جائینگے مگر کوئی حتمی تاریخ اب تک بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ ا
ریاستی ارباب اقتدار نے یقین تو دلایا ہے کہ اس سال اپریل میں میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کاؤنسلوں اور میونسپلٹیوں کے انتخابات منعقد کرائے جائینگے مگر کوئی حتمی تاریخ اب تک بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ اس سلسلے میں یہ سوال تو اپنی جگہ اہم ہے ہی کہ انتخابات کی ذمہ داری ریاستی الیکشن کمیشن کی ہے یا ریاستی حکومت کی؟ مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آخر اس کیلئے مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا؟ جہاں تک الگ الگ شہروں اور قصبوں سے ملنے والی ہماری معلومات کا سوال ہے، مقامی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ ادارے، جن کی بنیادی ذمہ داری شہروں اور قصبوں کے انتظام و انصرام بالخصوص شہری سہولیات کی ہوتی ہے، جس رفتار سے اپنی خدمات انجام دیتے آئے ہیں، گزشتہ دو سال سے ایسا نہیں کر رہے ہیں۔چار چھ ماہ کی تاخیر تو گوارا کی جاسکتی ہے مگر اب تو دو سال ہوچکے ہیں۔ بی ایم سی اور دیگر لوکل باڈیز کی میعاد ۲۰۲۲ء میں ختم ہوئی تھی، تب سے اب تک لوک سبھا کے انتخابات ہوگئے، اسمبلی انتخابات ہوگئے مگر کارپوریشنوں کا معاملہ معلق ہے اور اس کا سگنل ہی نہیں مل رہا ہے۔
گزشتہ ماہ (دسمبر ۲۴ء کو) ریاستی وزیر چندر شیکھر باونکولے نے مقامی انتخابات کیلئے ممکنہ طور پر مارچ اپریل کا اشارہ دیا تھا مگر یہ اعلان غیر مشروط نہیں تھا۔ وزیر موصوف نے کہا تھا کہ مارچ اپریل میں انتخابات کرائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ سپریم کورٹ او بی سی ریزرویشن کے تعلق سے جنوری کے پہلے ہفتے میں فیصلہ سنا دے۔ آج جنوری کی ۲۲؍ تاریخ ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات میں مزید وقت لگے گا؟
قارئین پر واضح رہنا چاہئے کہ دسمبر ۲۰۲۱ء میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ لوکل باڈیز میں اوبی سی کا ریزرویشن کی تب تک اجازت نہیں دی جاسکتی جب تک وہ تین شرطیں پوری نہ ہوں جن کی نشاندہی اس عدالت (سپریم کورٹ) نے اپنے ۲۰۱۰ء کے حکمنامے میں کی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ان تین شرطوں کو پورا نہیں کیا گیا تو او بی سی کی نشستوں کو جنرل سیٹ کے طور پر نوٹیفائی کیا جائیگا۔ وہ تین شرطیں اس طرح تھیں:
(۱) ایک ایسا کمیشن قائم کیا جائے جو ہر لوکل باڈی میں او بی سی کی پسماندگی کا ڈیٹا جمع کرے اور اسی کام کیلئے وقف ہو (۲) کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہر لوکل باڈی میں طے کیا جائے کہ ریزرویشن کا تنایسب کیا ہوگا، اور (۳) اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جو بھی ریزرویشن دیا جائیگا وہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے مجموعی ریزرویشن کے ۵۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
اگر ان شرطوں کی وجہ سے بی ایم سی اور دیگر کارپوریشنوں کے انتخابات اب بھی التوا میں رہے تو کہا نہیں جاسکتا کہ یہ جمود کب ٹوٹے گا۔ ویسے گمان غالب ہے کہ آج سپریم کورٹ میں اُن مقدمات کی سماعت ہوگی جن کا تعلق ممبئی کے وارڈوں کی تعداد میں تخفیف کے شندے حکومت کے فیصلے اور وارڈوں کی نئی تشکیل سے ہے۔ اگر آج سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا کہ مقدمات کے فیصلے تک انتظار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انتخابات کو مزید ٹالنا درست نہیں، اس سے مفادِ عامہ کے کام رُکے رہتے ہیں تو ممکن ہے کہ تین ماہ کے درمیان انتخابات ہوجائیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عوام کے حق میں ہوگا اور کاموں سے متعلق جوابدہی طے ہوسکے گی ۔