• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

قومی بجٹ اور جی ایس ٹی

Updated: January 28, 2025, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کو عنقریب یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ مسلسل آٹھواں عام بجٹ پیش کریں گی۔ اس سے پہلے کسی بھی وزیر مالیات کو مسلسل ۸؍ مرتبہ عام بجٹ پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کو عنقریب یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ مسلسل آٹھواں  عام بجٹ پیش کریں  گی۔ اس سے پہلے کسی بھی وزیر مالیات کو مسلسل ۸؍ مرتبہ عام بجٹ پیش کرنے کا موقع نہیں  ملا۔ مرارجی دیسائی کا نام تھا مگر اُن کا ریکارڈ مسلسل ۶؍ مرتبہ کا ہے، سیتارمن اُس ریکارڈ کو پہلے ہی توڑ چکی ہیں  اور اب ۷؍ مرتبہ کے اپنے ہی ریکارڈ کو توڑنے جارہی ہیں ۔ مگر، بجٹ کے نفع بخش ثابت ہونے کا جہاں  تک تعلق ہے، یہ بحث کا موضوع ہے اور ہم سمجھتے ہیں  کہ مبصرین اور تجزیہ نگاروں  میں  ایسے لوگ کم ہوں  گے جو اُن کے پیش کردہ اب تک کے بجٹ کو مثالی مانتے ہوں  گے۔ حکومت کی کارکردگی پر تنقیدی زاویہ اپنانے والے بھی تسلیم کرتے ہیں  کہ سیتا رمن صاحبہ نہ تو مہنگائی کم کرسکی ہیں  نہ ہی معیشت کو اِس قابل بنا سکی ہیں  کہ اس کا شہرہ ہو۔ بعض ایجنسیاں  وقتاً فوقتاً قومی معیشت کی تیز رفتاری پر بغلیں  بجاتی ہیں  مگر ہمارے خیال میں  یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہندوستان سے وابستہ کئے گئے مفادات پورے کئے جاسکیں ۔ ہماری نظر میں  بہترین معیشت وہ ہے جو خود ترقی کرے اور ایک ایک شہری کی ترقی کی ضمانت دے۔اسی نقطۂ نظر سے ہر سال بجٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے مگر ہر سال خوشی کم اور مایوسی زیادہ ہوتی ہے۔ 
 اب چونکہ یکم فروری کو پیش ہونے والے بجٹ میں  زیادہ دن نہیں  رہ گئے ہیں  اس لئے الگ الگ شعبوں  کے مطالبات منظر عام پر آنے شروع ہوگئے ہیں  جن سے علم ہوتا ہے کہ کون سا شعبہ بجٹ سے کون سی توقعات وابستہ کررہا ہے۔ کیا یہ توقعات پوری ہوں  گی؟ اس سوال کا جواب یکم فروری کو مل جائیگا مگر جہاں  تک ہماری رائے کا تعلق ہے، الگ الگ شعبوں  کی توقعات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک پُرجوش اور پیداواریت سے بھرپور بجٹ موجودہ وقت کا تقاضا ہے جو نوعیت کے اعتبار سے انقلابی ہو اور معیشت کی سمت و رفتار طے کرنے میں  معاون ہو۔ اس میں  جہاں  قلیل مدتی معاملات و مسائل سے نمٹنے کی کوشش ہو وہیں  طویل مدتی ویژن ہو۔ اس میں  توجہ اس بات پر بھی مرکوز کی جانی چاہئے کہ امریکہ میں  ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے جو اثرات عالمی معیشت پر پڑیں  گے اُس سے ہم کتنا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں  یا کتنا نقصان کم کرسکتے ہیں ۔ ٹرمپ کو پورا اختیار ہے کہ وہ امریکہ کے مفاد میں  سوچیں  مگر دوسرے ملکوں  کے مفادات کی قیمت پر ایسا سوچنا کسی بھی زاویئے سے درست نہیں  ہے۔ ہمیں  اس کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔
 ایک بات اور۔ وہ یہ کہ جب سے جی ایس ٹی کا نظام نافذ کیا گیا ہے، رائے عامہ اس کے خلاف ہے۔بعض اشیائے خوردنی مثلاً مسکہ، گھی، پھلوں  کا رس وغیرہ پر ۱۲؍ فیصد اور بالوں  کے تیل یا ٹوتھ پیسٹ وغیرہ پر ۱۸؍ فیصد ٹیکس کچھ اور نہیں  بلکہ زیادتی ہے۔ ہر بار حکومت یہ کہہ کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اس نے اتنا جی ایس ٹی وصول کیا اور ہر بار عوام سوچتے ہیں  کہ وہ کتنا اور کب تک لُٹتے رہیں  گے۔ اسلئے ضروری ہے کہ نیا بجٹ جی ایس ٹی کی شرح کم کرے اور پچاس فیصد تک کم کرے جس سے افراط زر بھی قابو میں  رہے گا اور عوام کو راحت کا سانس لینے کا موقع ملے گا جنہیں  اس انکشاف سے خوشی نہیں  ہوتی کہ ہماری معیشت دنیا کی پانچویں  سب سے بڑی معیشت ہے۔ وہ تو یہی سوچتے ہیں  کہ اتنی بڑی معیشت میں  ہمارا کتنا حصہ ہےاور اس سے ہمیں  کتنا فیض حاصل ہورہا ہے۔ وزیر موصوفہ کی کوشش ہو کہ عوام، یکم فروری کو مسروروشادماں  دکھائی دیں  نہ کہ فکرمند۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK