راجیہ سبھا کا چیئرمین بہت اہم شخص ہوتا ہے۔ اُسے راجیہ سبھا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ اس عظیم و قدیم ملک کا نائب صدر جمہوریہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 12, 2024, 12:32 PM IST | Mumbai
راجیہ سبھا کا چیئرمین بہت اہم شخص ہوتا ہے۔ اُسے راجیہ سبھا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ اس عظیم و قدیم ملک کا نائب صدر جمہوریہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوتا ہے۔
راجیہ سبھا کا چیئرمین بہت اہم شخص ہوتا ہے۔ اُسے راجیہ سبھا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ اس عظیم و قدیم ملک کا نائب صدر جمہوریہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے، اُس کی غیر جانبداری ہر زاویہ سے غیر مشکوک ہوتی ہے مگر راجیہ سبھا کے موجودہ چیئرمین جگدیپ دھنکر کا طور طریقہ اور ایوان کی کارروائی میں جانبدارانہ طرز عمل حیران کن ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ حزب اختلاف کے اراکین کو اظہار خیال کا موقع نہ دینا، اظہار خیال کے دوران روکنا، ٹوکنا، ’’سکھانا‘‘ اور ’’سمجھانا‘‘ اُن کا معمول بن گیا ہے۔ اپوزیشن اراکین کے جملے مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ کہہ اُٹھنا اور بار بار ایسا کرنا کہ ’’یہ ریکارڈ پر نہیں جائیگا‘‘ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اپوزیشن کے اراکین کو روکنے اور ٹوکنے کا سلسلہ تو لوک سبھا میں بھی جاری ہے مگر راجیہ سبھا میں بعض اوقات یہ عمل اس قدر تحقیر آمیز ہوجاتا ہے کہ سینئر سے سینئر اراکین اپنی بات نہیں کہہ پاتے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے جیسے سینئر، بزرگ اور تجربہ کار سیاستداں کئی بار اس رویہ کے خلاف احتجاج کرچکے ہیں، ایسی ہی شکایات دیگر اراکین کی بھی ہے۔ ایوان کی کارروائی بہتر طریقے پر چلانا، سب کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا اور قانون سازی کے عمل کو سب کی رائے کے ساتھ جاری رکھنا حکمراں محاذ کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر اب شاید یہ توقع کی جانے لگی ہے کہ اپوزیشن کے اراکین ہاؤس میں موجود تو رہیں مگر خاموشی کے ساتھ سنیں اور دیکھیں، کسی بھی معاملے میں مزاحمت نہ کریں، اپنا موقف واضح کرنے کی زحمت نہ اُٹھائیں، بحث و مباحثے یا اظہار خیال کا جتنا موقع ملے اُس پر اکتفا کریں اور حکمراں محاذ کے خلاف لب کشائی سے گریز کی پالیسی اپنائیں۔ اس کا آسان لفظوں میں مفہوم یہ ہوگا کہ اپوزیشن تو رہے مگر علامتی طور پر، اس سے زیادہ کا کردار ادا کرنا ہو یعنی کچھ کہنا اور کرنا ہی ہو تو وہی کرے جس سے حکمراں محاذ کے موقف کی تائید ہوتی ہو۔ کوئی کچھ بھی کہے یہ جمہوریت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حادثے کا اثر: کرلا اسٹینڈ سے بیسٹ بس خدمات بند، ہزاروں مسافر پریشان
جہاں تک جگدیپ دھنکرکا تعلق ہے، اُن کے بارے میں کچھ کہنا ملک کے دو اہم عہدوں کے وقار پر سوال اُٹھانے جیسا ہے مگر افسوس کہ موصوف، راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے خود ہی اپنے عہدے کے وقار کی فکر اور تحفظ نہیں کررہے ہیں۔ ماضی کے ایک اجلاس میں، جب ونیش پھوگاٹ کا میڈل چھن جانے کا موضوع چھایا ہوا تھا، یہ بھی ہوا اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ راجیہ سبھا کے سربراہ نے ایوان سے خود ہی واک آؤٹ کردیا۔ وہ ایوان میں آر ایس ایس کی تعریف کرچکے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کے اس مطالبے پر کہ وزیر اعظم کو ایوان میں بلایا جائے، اُن کا جواب تھا کہ وزیر اعظم کے عہدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا نہیں کیا جاسکتا جبکہ یہ اُن کے دائرۂ اختیار میں ہے اُس کے باہر نہیں۔
واقعات بہت سے ہیں جو دھنکر صاحب کے طرز عمل کے الزام کی توثیق کیلئے کافی ہیں۔ اپوزیشن کے ذریعہ اُن کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونا نہایت افسوسناک واقعہ ہے، یہ نہ ہوتا تو بہتر تھا مگر، جیسا کہ پریس کانفرنس میں کانگریس اور دیگر پارٹیو ںکے لیڈروں نے کہا وہ اس اقدام پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہوگا کچھ نہیں۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائیگی۔ راجیہ سبھا میں منظور ہوئی بھی تو لوک سبھا میں نامنظور ہوجائیگی مگر اس کی حیثیت ایک تنبیہ کی تو بہرحال ہے۔ دھنکر صاحب ہی نہیں اُن کے بعدکے منصب نشینوں کو بھی متنبہ رہنا ہوگا۔n