سال کے اس حصے میں ، جس میں ہم فی الوقت ہیں ، کئی شہروں میں طلبہ کے تقریری مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔
EPAPER
Updated: December 22, 2024, 3:39 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سال کے اس حصے میں ، جس میں ہم فی الوقت ہیں ، کئی شہروں میں طلبہ کے تقریری مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔
سال کے اس حصے میں ، جس میں ہم فی الوقت ہیں ، کئی شہروں میں طلبہ کے تقریری مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔ آج اسی موضوع پر چند معروضات پیش کئے جارہے ہیں : غالب صاحب نے کہا تھا کہ تقریر کی لذت اس میں ہے کہ سننے والے پکار اُٹھیں کہ جو بات کہی گئی وہ من و عن ہمارے دل کی ہے مگر فن تقریر کیلئے اتنا کافی نہیں ۔ فن تقریر کے لوازمات میں اور بھی کئی پہلو شامل ہیں ، مثلاً تقریر سے مقرر کی خود اعتمادی جھلکے، اُس کو زبان و بیان پر قابو ہو، دوران تقریر وہ موضوع پر یکسو‘ رہے، خیالات کی رَو میں بھٹک نہ جائے اور موضوع سے ہٹ نہ جائے، اس کے پاس کہنے کیلئے ایسا کچھ اور اتنا کچھ ہو کہ سننے والوں کی دلچسپی برقرار رہے اور اُنہیں محسوس ہو کہ تقریر سن کر اُنہیں کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ اچھے مقرر کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سامعین کو دیکھ کر طے کرتا ہے کہ اُسے جو کہنا ہے وہ کس طرح کہے، کون سی مثالیں پیش کرے اور کن واقعات کا سہارا لے۔ اگر مقرر ذاتی تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرے اور سنی سنائی کے بجائے خود پر بیتی ہوئی باتیں بتائے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کا قول نقل کرے تو اس یقین کے ساتھ کرے کہ صحیح صحیح نقل کررہا ہے اور اگر شعر سنائے تو اس یقین کے ساتھ سنائے کہ ا س میں الفاظ و تلفظ کی کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ یہ تب ہی یہ ممکن ہوگا پہلے سے بھرپور تیاری ہوگی۔ تقریر کے دوران جتنی اہمیت اندازو ادا کی ہے اُتنی ہی آواز کے زیر وبم کی بھی ہے۔ تقریر کو دلنشین بنانے میں صوتی نشیب و فراز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل تو مقررین یہ بھی جانچ لیتے ہیں کہ آلۂ نشر الصوت (مائیکروفون) کتنا حساس ہے اور اُنہیں اپنی آواز کتنی اونچی اور کتنی مدھم رکھنی ہے نیز آلۂ نشر کے کتنا قریب یا کتنا دور کھڑا رہنا ہے۔
اس پس منظر میں اسکولی طلبہ کے تقریری مقابلوں کو پرکھا جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ان مقابلوں کو سنوارنے پر خاص توجہ ضروری ہے۔ تقریری مقابلے میں شریک ہونے والے طلبہ رٹی رٹائی تقریر پیش کرتے ہیں ۔ انداز و اَدا یا حرکات و سکنات وہی ہوتے ہیں جو اساتذہ کردیتے ہیں ۔ اکثر تقاریر کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ کے ساتھ ساتھ اشعار کا استعمال تقریر کو پُرلطف تو بنا دیتا ہے اور مجمع بھی بے ساختہ داد دے بیٹھتا ہے مگر کیا اس طرح طلبہ کو مستقبل کا بہترین مقرر، مباحثہ کار، ناظم یا میزبان بنایا جاسکتا ہے؟ انگریزی میں اِن دنوں ’’فیوچر لیڈر‘‘ کی اصطلاح عام ہے۔ طالب علموں کو فیوچر لیڈر کہا جاتا ہے۔ طلبہ میں گوناگوں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش محض اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ، جس کسی شعبے کا میلان رکھتے ہیں اُس میں سربراہی کے منصب تک پہنچیں ۔ اگر اُنہیں بہترین مقرربنانا ہے تو اُن کی مدد بھی اُسی طرح کی جانی چاہئے کہ وہ اپنا یعنی خود کا انداز تلاش کریں ، تقریر تیار کرنے والے ٹیچر کا سکھایا ہوا انداز زیادہ عرصہ تک اُن کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس کیلئے اسکولوں کو اول، دوم، سوم انعام کی کشش سے اوپر اُٹھنا ہوگاتاکہ وہ طلبہ کو اس سے بڑا انعام دے سکیں ۔
چونکہ صرف اور صرف انعام کو ہدف بنایا جاتا ہے اسلئے بار بار انعام جیتنے والے طلبہ بھی عملی زندگی میں بہترین مقرر بن کر نہیں اُبھرتے۔ کتنے اول انعام یافتہ طلبہ پتہ نہیں کہاں کھوگئے، وہ بہت کچھ بنے ہونگے، مقرر نہیں بنے۔ کیا اس ضمن میں کچھ کیا جاسکتا ہے؟ ہمارا مشورہ ہے کہ ہدف شخصیت سازی ہو نہ کہ انعام۔