Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نفرت کی سیاست اور محبت کا پیغام

Updated: March 17, 2025, 1:36 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جمعہ کو ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں  عالمی اسلاموفوبیا مخالف دن کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں پوری دنیا میں  مسلمانوں  کے خلاف مذہب کی بنیاد پر عدم تحمل کے رجحان میں  اضافے کی پُرزور مذمت کی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

  جمعہ کو  ہندوستان نے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں  عالمی اسلاموفوبیا مخالف دن  کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں  پوری دنیا میں  مسلمانوں  کے خلاف مذہب کی بنیاد پر عدم تحمل  کے رجحان میں  اضافے کی پُرزور مذمت کی۔ اقوام متحدہ میں   ہندوستان کے مستقل نمائندہ  پی ہریش نے  نئی دہلی کے موقف کو ان  لفظوں  میں   بیان کیا کہ ’’ہم   اقوام متحدہ کے تمام اراکین کے شانہ بہ شانہ  مسلمانوں  کے خلاف  مذہبی عدم تحمل کے واقعات کی پُرزور مذمت کرتے ہیں ۔ ‘‘ ہندوستان میں  ۲۰؍ کروڑ سے زائد مسلم آبادی کا حوالہ دیتے ہوئے  ان کا یہ کہنا بھی  ہر ہندوستانی کیلئےاہم  ہے کہ دنیا کو مذہبی امتیاز، نفرت اور تشدد سے پاک کرنا آج سے نہیں بلکہ نامعلوم  دور سے ہندوستان کی طرز زندگی کا حصہ ہے۔  اس میں  کوئی شک نہیں  کہ صدیوں   سے  ہندوستان کی یہی پہچان رہی ہےمگر گزشتہ ایک دہائی میں   حالات  نے جس تیزی سے کروٹ بدلی ہے وہ افسوس ناک ہے۔
  جس  جمعہ کو ہندوستان اقوام متحدہ میں  عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسلمانوں  کے خلاف نفرت انگیزی کی مذمت کررہاتھا،اُسی جمعہ کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں  سراسیمگی  پھیلی ہوئی تھی۔ ملک ہولی کا تہوار منارہاتھا مگر تہوار کی خوشیوں   پر  یہ اندیشہ غالب تھا کہ کہیں  کوئی تصادم نہ ہوجائے۔آزاد ہندوستان میں  مساوی حقوق کے حامل مسلم شہریوں  کووارننگ دی گئی تھی کہ اگرانہیں   رنگوں  سے اعتراض  ہےتو گھروں  سےباہر نہ نکلیں ۔ یہ دھمکی کسی ایرے غیرے  نے نہیں  بلکہ  سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے رینک کے ایک اعلیٰ افسر نے دی تھی  اور ریاست کے وزیراعلیٰ نے اس کی تائید کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں  نے صبرو تحمل کامظاہرہ کرنے اور شرپسندوں  کو کسی بھی صورت میں  کامیاب نہ ہونے دینے کا جو عزم کیا  اس پر وہ تمام تر شرانگیزیوں   کے باوجود قائم رہے۔ وہ اس بات کیلئے راضی ہوگئے کہ مساجد کو تار پتری سے ڈھانپ دیا جائےاور حساس علاقوں  میں  نماز جمعہ کو مو ٔ  خر کردیا جائے۔ ان احتیاطی تدابیر کے باوجود علی گڑھ سے سنبھل تک عین مسجدوں  کے سامنے ہولی منانے کے نام پر جس طرح  کی حرکتیں  ہوئیں    وہ نہ صرف کیمروں   میں   قید ہوگئیں  بلکہ سوشل میڈیا کے توسط سےچشم زدن میں   پوری دنیا میں  پھیل گئیں ۔  یہ ہمارے ملک کیلئے  یقیناً شرمندگی کا باعث   ہے جس کا نمائندہ اقوام متحدہ میں  یہ بات فخریہ انداز میں  کہتا ہے کہ ’’ہندوستان کثرت میں   وحدت والا ملک ہے۔‘‘  اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ’’تمام ممالک کوچاہئے کہ وہ اپنے شہریوں    کے ساتھ کسی امتیاز کے بغیر یکساں  سلوک کو یقینی بنائیں ۔‘‘ افسوس کہ ہندوستان بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اقوام عالم کو جو تلقین کررہا ہے، خود اس کی ریاستی حکومتیں  اس پر عمل پیرا نہیں   ہیں ۔   یہاں  گزشتہ چند برسوں  میں  مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو معمول کی حیثیت حاصل ہونےلگی ہے۔ نفرت سیاست کی اساس بن چکی ہے  اور میڈیا جس کا کام اس کی بیخ کنی تھا،اس  میں  اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ایسے میں  دہلی کے سیلم پور اور ہری دوار کے جوالا پور  میں  نماز جمعہ کے بعد اکثریتی فرقہ کے لوگوں  کا نمازیوں  پرہولی مناتے ہوئے  پھول برسانا اورانہیں  مالائیں  پہنا کر گنگا جمنی تہذیب کا مظاہرہ کرنا ، نفرت انگیز ماحول کی تپش میں  ٹھنڈی ہوا کے مترادف ہے۔ہر دور کی طرح موجودہ دور میں  بھی  اکثریتی  فرقہ کی ذمہ داری اقلیتوں  سے زیادہ ہے کہ وہ ایسے علامتی اقدامات  کے ذریعہ سیاسی قائدین کو پیغام دیں  کہ وہ نفرت   کے ساتھ نہیں  ہیں   ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK