Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدرِامریکہ،جبر ِ امریکہ

Updated: April 07, 2025, 1:10 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے پوری دنیا حیران ہے، پریشان ہے اور کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان صاحب کا کیا کیا جائے۔ ان کے دوست تو نالاں ہیں ہی، وہ بھی برہم ہیں جن سے ان کی اتنی اچھی دوستی نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں  کی وجہ سے پوری دنیا حیران ہے، پریشان ہے اور کسی کی کچھ سمجھ میں  نہیں  آرہا ہے کہ ان صاحب کا کیا کیا جائے۔ ان کے دوست تو نالاں  ہیں  ہی، وہ بھی برہم ہیں  جن سے ان کی اتنی اچھی دوستی نہیں  ہے۔ ویسے بھی سیاست میں  دوستیاں  بنتی بگڑتی رہتی ہیں ۔ سارا کھیل مفادات کا ہے۔ مفادات یکساں  ہوں ، مشترک ہوں  تو تلخ بھی شیریں  لگتا ہے، مفادات ٹکراتے ہوں  تو شیریں  بھی تلخ ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ ۷۸؍ سال کے ہوچکے ہیں  مگر آئندہ ۷۸؍ سال اقتدار میں  رہنے کیلئے امریکہ کو دوبار’’عظیم‘‘ بنانے میں  مصروف ہیں ۔ مصروف ہیں  یا مبتلا یہ ہر خاص و عام جانتا ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں  کہ ٹرمپ نے پوری دنیا کو مبتلا کر دیا ہے ایسی الجھن میں  جس میں  تشویش بھی ہے خوف بھی۔ ٹیریف کی جنگ چھیڑ کر انہوں  نے عالمی مالی بازاروں  کی ہوا بھی نکال دی ہے۔
 کل ہی امریکہ کے بڑے مالیاتی ادارے ’’جے پی مورگن‘‘ نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ سال رواں  کے اخیر تک امریکہ کساد بازاری کے دہانے پر پہنچ چکا ہوگا۔ مگر ٹرمپ کو شاید وہ معلوم ہے جو کسی کو معلوم نہیں ۔ وہ کسی ایسے منصوبے پر کام کررہے ہیں  جسکے ناکام ہونے کا ان کے علاوہ سب کو یقین ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ سوچتے بعد میں  ہیں  پہلے کر گزرتے ہیں ۔ انہیں  روکنا کسی کے اختیار میں  نہیں ، خود وہ بھی چاہیں  تو خود کو نہیں  روک سکتے۔ انہوں  نے ٹیریف کی شرحوں  میں  غیر فطری اضافے کے ذریعہ بہت سے ملکوں  بلکہ ممکنہ طور پر خود اپنی حکومت اور عوام کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ چین نے فوری ردعمل کے ذریعہ ٹرمپ کو انہی کی زبان میں  جواب دینے کی جرأت کا مظاہرہ کیا جبکہ یورپی یونین عنقریب اپنے موقف کا اظہار کرے گی مگر اس سے قبل کہ ٹرمپ اور ’’ٹیریف زدہ‘‘ ملکوں  میں  آمنے سامنے کی لڑائی شروع ہو، امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں  کے ۱۲۰۰؍ مقامات پر ٹرمپ مخالف مظاہرے ہوئے ہیں  جو یہ سمجھانے کیلئے کافی ہیں  کہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا عہد کرنے والے صدر کو بیرونی دنیا سے پہلے اندر کی دنیا کے غصے کا سامنا ہے۔’’ہینڈز آف‘‘ نام سے یہ مظاہرے امریکی عوام و خواص کے غم و غصہ کا آئینہ ہیں ۔ اگر ان میں  شدت پیدا ہوئی تو کیا عوامی احتجاج کو طاقت کے ذریعہ روکا جائیگا؟ کیا ٹرمپ اس جرأت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ؟ کئی مبصرین بھی ٹرمپ کو ان خطرات کے خلاف متنبہ کررہے ہیں  جو ان کے اقدام سے یقینی نظر آرہے ہیں ۔ ٹی وی تبصرہ نگار جم کریمر نے اپنے تازہ شو میں  ٹرمپ کو ۱۹۸۷ء جیسی کساد بازاری کے خلاف متنبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں  اتنا خوفزدہ نہیں  ہوں  جتنا میرے بعد کی نسل کو ہوسکتی ہے کیونکہ میں  ۱۹۸۷ء کے بحران سے بچ نکلا تھا مگر پریشانی تو تب بھی ہوئی تھی اور اب بھی ہوسکتی ہے۔ کیا ٹرمپ ایسے مبصرین کی سنیں  گے؟ لگتا تو نہیں  ہے، آثار بھی نظر نہیں  آتے مگر ٹرمپ کے خلاف محاذ آرائی کو خارج از امکان قرار نہیں  دیا جاسکتا۔ اگر چین کے بعد یورپی یونین بھی جارحانہ رخ اختیار کرتی ہے تو ٹرمپ کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ یورپی ملکوں  سے موصولہ خبروں  سے معلوم ہوتا ہے کہ یونین ٹرمپ کے اقدام سے نمٹنے کی تیاری کررہی ہے۔ اس کے سامنے کئی متبادل ہیں  مگر اس نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں  کیا ہے۔ یونین جانتی ہے کہ ٹرمپ کے ذریعہ ساری اتھل پتھل محض اس لئے ہے کہ وہ عالمی معیشت کی تشکیل نو چاہتے ہیں  تاکہ اس کا محور و مرکز امریکہ ہو۔ یہ اپنی سپر پاوری کو مستحکم کرنے کیلئے ہے مگر عالمی معاشی بحران کا خطرہ مول لے کر وہ امریکی معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK