مسلمانوں کا بڑا طبقہ بہت سی باتوں کو اُصولاً قبول کرتا ہے مگر عملاً اس کے برعکس کرتا ہے۔ مساجد اللہ کا گھر ہیں ۔ ان کے اندرون میں جتنا نظم و نسق پایا جاتا ہے اور ادب و آداب کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کے بیرون میں بھی ان باتوں کا التزام کیا جانا چاہئے مگر مساجد کے اندرون و بیرون میں اگر زمین آسمان کا نہیں تب بھی بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کا بڑا طبقہ بہت سی باتوں کو اُصولاً قبول کرتا ہے مگر عملاً اس کے برعکس کرتا ہے۔ مساجد اللہ کا گھر ہیں ۔ ان کے اندرون میں جتنا نظم و نسق پایا جاتا ہے اور ادب و آداب کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کے بیرون میں بھی ان باتوں کا التزام کیا جانا چاہئے مگر مساجد کے اندرون و بیرون میں اگر زمین آسمان کا نہیں تب بھی بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ مساجد کے باہر لوگوں کا گروپ کی شکل میں پایا جانا، گپ شپ میں مصروف رہنا اور اکثر جگہوں پر آس پاس کی دکانوں کے قریب بھیڑ جمع ہونا خلاف ِ ادب کیوں تصور نہیں کیا جاتا یہ ہماری فہم سے بالا ہے۔
برادران وطن مسجد کو دیکھتے ہیں اور پھر ’’مسجد والوں ‘‘ کو دیکھتے ہوں گے۔ مسجد دیکھ کر اُنہیں خوشگوار احساس ہوتا ہوگا مگر مسجد والوں کو دیکھ کر؟ ہم نہیں جانتے مگر ہمارا احساس کہتا ہے کہ مسجد والوں کو دیکھ کر اُن پر کوئی خوشگوار تاثر تو یقیناً قائم نہیں ہوتا ہوگا۔ اگر مسجد نظم و نسق سکھاتی ہے کہ مصلیان وضو کرتے ہیں ، پھر صف بہ صف یکجا ہوتے ہیں اور ایک امام کا اتباع کرتے ہیں اور صدائے امام سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتے تو نماز کا یہ منظر وجہ ِ تسکین و طمانیت ہی نہیں بنتا، بھرپور ڈسپلن کا بھی مظہر بن جاتا ہے۔ اس سے ایک ایسی قوم کا تصور اُبھرتا ہے جو منظم و متحد ہے، جسے انتشار چھو کر بھی نہیں گزرا مگر نماز کے بعد کی کیفیت بالکل متضاد تصویر پیش کرتی ہے۔ اس تضاد کو ختم کرنے کیلئے جہاں مصلیان کو اپنے طور پر کوشش کرنی ہوگی کہ وہ مساجد کے باہر گروپ بازی اور مجمع بازی سے گریز کریں (کہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے) وہیں مساجد کے انتظامیہ کو بھی فعال ہونا پڑے گا کہ وہ مصلیان کو باربار سمجھائیں اور اُن میں نظم و ضبط کی پاسداری کا احساس جگائیں ۔
اُصولاً راضی ہونے اور عملاً کچھ اور کرنے کی مثال تقسیم ِ زکوٰۃ سے بھی ملتی ہے۔ صاحبان نصاب کی بڑی تعداد اجتماعی نظم ِ زکوٰۃ سے متفق دکھائی دیتی ہے مگر جب اس نظم کا حصہ بننے کا وقت آتا ہے تو اکثر لوگ اجتماعیت کو فراموش کردیتے ہیں ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ جس دین مبین کے ماننے والے ہیں ، وہ اُنہیں بار بار اجتماعیت کی طرف لاتا ہے اور روزانہ کی پنجوقتہ نمازوں ، نمازِ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے مستحکم طریق کار کے ذریعہ اُن میں اجتماعیت کا شعور پیدا کرنا چاہتا ہے مگر صفوں سے ہٹنے کے بعد جب یہ لوگ انفرادی زندگی میں آتے ہیں تو اجتماعیت کے فلسفے کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی نظم ِ زکوٰۃ بار بار کی تلقین کے باوجود اس طرح تشکیل نہیں پاسکا ہے کہ جیسا کہ تشکیل کا حق ہے۔
اُصولاً راضی ہونے اور عملاً مختلف راہ اپنانے کی ایک اور مثال مساجد کے باہر جمع ہوجانے والے اُن گداگروں کے ساتھ اکثر مصلیان کا طرز عمل ہے جو نہیں دیکھتے کہ کون کتنا مستحق ہے، مستحق ہے بھی یا نہیں ، مستحق ہونے کے باوجود اُسے خیرات دی جانی چاہئے یا نہیں کہ اُن میں سے کئی لوگ چہرے ہی سے نشہ باز معلوم ہوتے ہیں ۔ مصلیان کی اکثریت اُنہیں آنکھ بند کرکے خیرات دیتی چلی جاتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ جتنی بڑی مسجد ہوتی ہے اُس کے باہر گداگروں کی اُتنی زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ ذمہ دارانِ مساجد کو ان گداگروں سے نمٹنے کا کوئی طریقہ، جو مؤثر بھی ہو، اختیار کرنا چاہئے کیونکہ ان میں ، آپس میں لڑنے بھڑنے اور گالم گلوج کرنے والے بھی کئی اور بہت سے پیشہ ور ہوتے ہیں ۔ سوچنا چاہئے کہ ہم اپنی سادہ لوحی میں کہیں گداگری کے پیشے کو تقویت تو نہیں دے رہے ہیں !