• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

طلبہ کی نفسیاتی صحت

Updated: July 07, 2024, 1:53 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

طلبہ کی نفسیاتی صحت بچوں کی نفسیات سے والدین کو جتنا آگاہ ہونا چاہئے کیا وہ اُتنا آگاہ رہتے ہیں ؟ کیا وہ کبھی بچوں کی نفسیات کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں ؟ کیا وہ اُن میں واقع ہونے والے نفسیاتی بگاڑ کو محسوس کرتے ہیں ؟ کیا اُنہیں ایسے اشارے ملتے ہیں جو صحت مند نہیں ہوتے؟ یہ اور ایسے سوالات کے مثبت جواب کی اُمید کم کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بچوں  کی نفسیات سے والدین کو جتنا آگاہ ہونا چاہئے کیا وہ اُتنا آگاہ رہتے ہیں ؟ کیا وہ کبھی بچوں  کی نفسیات کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں ؟ کیا وہ اُن میں  واقع ہونے والے نفسیاتی بگاڑ کو محسوس کرتے ہیں ؟ کیا اُنہیں  ایسے اشارے ملتے ہیں  جو صحتمند نہیں  ہوتے؟ یہ اور ایسے سوالات کے مثبت جواب کی اُمید کم کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں  بچوں  کی تربیت اور اُن کے مستقبل کے تعلق سے والدین کی بیداری بڑا مسئلہ ہے۔ وہ کبھی اتنا غوروخوض نہیں  کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں  تو باخبری کے فقدان کی وجہ سے صحیح نتائج اخذ کرنے میں  کامیاب نہیں  ہوپاتے۔ اس کی وجہ عموماً یہ بیان کی جاتی ہے کہ والدین کے پاس اتنا وقت نہیں  ہوتا کہ وہ ان باتوں  پر غوروفکر کریں ۔ والد معاش کی گتھیاں  سلجھانے میں  زیادہ وقت صرف کرتے ہیں  اور والدہ گھریلو ذمہ داریوں  کی انجام دہی میں  گھری رہتی ہیں ۔ رہی سہی کسر موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پوری کردیتا ہے جس کے اسیر تقریباً سب ہیں  اور جو دورِ حاضر کی سب سے پیچیدہ مشکل ہے۔ 
 اِدھر ایک عرصہ سے، طلبہ میں  پائے جانے والے منفی رجحانات والدین کو بیدار اور باخبر رہنے کیلئے متنبہ کرتے ہیں ۔ منفی رجحانات میں  بہت کچھ شامل ہے۔ سوشل میڈیا کے اثرات قبول کرنا، ذہنی انتشار میں  مبتلا ہونا، برتری اور کمتری کے احساسات سے دوچار ہونا، کسی بھی غیر متوقع خبر یا واقعہ کا غیر فطری اثر لینا اور بعض اوقات کوئی انتہائی قدم اُٹھانے کے بارے میں  سوچنا، پڑھائی لکھائی میں  دلچسپی نہ لینا، ایسے ہدف کے بارے میں  سوچنا جس کا حصول ممکن نہ ہو، برہمی کا رویہ اپنانا اور منشیات کے استعمال کی جانب قدم بڑھانا۔ وہ طلبہ قابل مبارکباد ہیں  جو اِن رجحانات سے محفوظ ہیں ۔ جو خود کو محفوظ نہیں  رکھ پائے اُن کے والدین کو فکرمند ہونا چاہئے اور جو جتنی جلدی فکرمند ہوگا اُتنا بہتر ہے۔ 
 اس میں  سماج کا بھی اہم کردار ہے۔ بلاشبہ سماجی تنظیمیں  والدین کی بیداری کیلئے سرگرم رہتی ہیں  مگر اب بھی یہ سرگرمی بہت کم ہے کیونکہ حالات کی یورش بہت تیز ہے اور بگاڑ کے نقطۂ نظر سے موجودہ دور کا ماحول بہت سازگار ہے۔ سماجی تنظیموں  کو تسلسل کے ساتھ ایسے پروگرام منعقد کرنے چاہئیں  جن میں  والدین کو ماہرین سے استفادہ کا موقع ملے۔ ایسے پروگرام اسکولوں  اور کالجوں  میں  بھی منعقد کئے جانے چاہئیں  جو ہوتے بھی ہیں  مگر وقت اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر اِن میں  اضافہ ناگزیر ہے۔ جو طلبہ اِس وقت اسکولوں  اور کالجوں  میں  زیر تعلیم ہیں ، وہ ملت کا بھی اثاثہ ہیں  اور ملک کا بھی۔ ان کے بہتر مستقبل سے ملت اور ملک، دونوں  کا مستقبل وابستہ ہے۔ ظاہر ہے اِن کے والدین کو خوشی ہوگی جب وہ دیکھیں  گے کہ اُن کے بچو ں کی اتنی فکر کی جارہی ہے۔ اسی بنیاد پر اُن کے تعاون کی اُمید بھی بڑھتی ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ ماہرین کو جب اسکولوں  کالجوں  میں  مدعو کیا جاتا ہے تو وہ اپنی مصروفیت کے باوجود پروگرام میں  شرکت کی ہامی بھرنے میں  تامل نہیں  کرتے۔ ماہرین اور طلبہ نیز ماہرین اور والدین کا تعامل (انٹرایکشن) جتنا بڑھے گا، اُتنا فائدہ طلبہ اور اُن کے والدین کو حاصل ہوگا۔ اس سے اُن کی باخبری میں  بھی اضافہ ہوگا جو اُن کی حساسیت میں  اضافے کا سبب بنے گی، علاوہ ازیں   طلبہ کا ذہنی طور پر پُرسکون رہنا آسان ہوجائیگا جب اُنہیں  اپنے والدین کی جانب سے معیاری تعاون ملے گا۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے، ملی جلی، مشترکہ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK