• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

راہل کا دورۂ منی پور

Updated: July 10, 2024, 1:25 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

دورۂ منی پور کے اختتام پر راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بڑے دوٹوک انداز میں کہا کہ مجھے جو کہنا تھا وہ مَیں کہہ چکا ہوں ، اب آپ گفتگو کو پٹری سے اُتارنے کی کوشش نہ کریں ۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی نشست سے اُٹھنے لگے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 دورۂ منی پور کے اختتام پر راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں  بڑے دوٹوک انداز میں  کہا کہ مجھے جو کہنا تھا وہ مَیں  کہہ چکا ہوں ، اب آپ گفتگو کو پٹری سے اُتارنے کی کوشش نہ کریں ۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی نشست سے اُٹھنے لگے۔یہ ایک قسم کا اعلان تھا کہ پریس کانفرنس ختم ہوچکی ہے مگر جتنی دیر میں  راہل اپنی جگہ سے اُٹھتے، سوال کرنے والے صحافی نے ایک اور سوال داغ دیا: ’’منی پور آپ کی نظر میں  کیا ہے؟‘‘ راہل نے یہ کہہ کر اُس صحافی کو خاموش کردیا کہ ’’منی پور ہمارے خوبصورت ترین علاقوں  میں  سے ایک ہے۔‘‘ 
 اس سے ثابت ہوا کہ راہل گاندھی، برسو ں  کی تحقیر اور کسی جملے یا بیان کو گھما پھرا کر متنازع بنانے والے صحافتی حربوں  کے خلاف محتاط اور متنبہ ہوچکے ہیں  اور نہیں  چاہتے کہ اُن کے مطمح نظر کو کسی اور رنگ میں  پیش کیا جائے جیسا کہ ماضی میں  ہوتا رہا۔ اس سے راہل کی سیاسی پختگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 
 یہ بات اب سے پہلے بھی محسوس کی گئی تھی اور اب بھی محسوس کی جارہی ہے کہ مخالفین کو راہل کا منی پور جانا پسند نہیں  آرہا ہے۔ کیوں  پسند نہیں  آرہا ہےاس کے اسباب سب پر ظاہر ہیں ۔ مگر، مشکل تو یہ ہے کہ حکمراں  طبقے کے لیڈران خود بھی تو  دورہ کی فکر نہیں  کررہے ہیں ! ایسی کیا وجہ ہے کہ اُن کے نزدیک منی پور اہم نہیں ؟  جبکہ سیاست کی ادنیٰ سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ مرکزی وزراء بالخصوص وزیر اعظم کے وہاں  جانے سے فرق پڑ سکتا ہے۔ میتیوں  اور کوکیوں  کے درمیان عمودی لکیر تو کھنچ چکی ہے، کیا وقت کے ساتھ یہ مزیدگہری نہیں  ہوگی؟ کیا وہ تمام لوگ، جو عارضی کیمپوں  میں  پناہ لئے ہوئے ہیں ، زندگی بھر اُن کیمپوں  میں  رہیں  گے اور اُن کی نسلیں  وہیں  پروان چڑھیں  گی؟ کیا تعلیم، صحت اور روزگار جیسے سنگین مسائل کیمپوں  میں  رہتے ہوئے حل کئے جاسکتے ہیں  اور کیا وہاں  کا مجموعی ماحول یہ  اجازت دیتا ہے کہ لوگ زندگی کی جدوجہد میں  ازسرنو شامل ہوں ؟ 
 قارئین کو یاد ہوگا کہ مرکزی وزارت داخلہ کی قائم کردہ امن کمیٹی سے کوکی اور میتی دونوں  ہی طبقوں  کی نمائندگی کرنے والے سول سوسائٹی گروپس علاحدہ ہوگئے تھے لہٰذا اُمید کی ایک شمع جو روشن ہوسکتی تھی نہیں  ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب بھی درِ پردہ کوشش جاری ہے تاکہ افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں  کسی قابل ذکر پیش رفت کی اُمید نہیں  کی جاسکتی کیونکہ برسرپیکار طبقات کے درمیان اعتماد کی غیر معمولی کمی ہے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ دونوں  گروہوں  کو سیکوریٹی فورسیز پر اتنا بھروسہ نہیں  جتنا کہ قیام امن کیلئے لازمی ہے۔ کوکی سماج کے لوگ منی پوری پولیس کو جانبدار مانتے ہیں  جبکہ میتی سماج کے لوگ آسام رائفلس پر اعتماد قائم کرنے میں  ناکام ہیں ۔ بی جے پی نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کو کشیدگی کم کرنے کیلئے روانہ کیا تھا مگر وہ کامیاب نہیں  ہوئے۔
  کوکی چاہتے ہیں  کہ بیرین سنگھ کو ہٹایا جائےجبکہ بیشتر میتی اُن کے حامی ہیں ۔ کم و بیش تیس لاکھ کی آبادی والی یہ ریاست ایسے مخمصے میں  پھنسی ہوئی ہے کہ جب تک مرکز بھرپور مخلصانہ سیاسی عزم کے ساتھ سرگرم نہ ہو اور قیام امن کے تقاضوں  کو پورا نہ کرے، عوام کی بے سکونی کم نہیں  ہوگی۔ ایک سال سے زیادہ ہوگیا، ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں  نہیں  آئی جس سے اُمید بندھے۔ ایسے میں وزیر اعظم کو راہل کی اپیل مان لینی چاہئے تاکہ اہل منی پور کو بھروسہ ہو کہ دلی ّ دور نہیں  ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK