روزہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسا راز ہے جو بندے اور رب کے درمیان رہتا ہے۔ اسی لئے رب نے فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر مَیں ہی دوں گا چنانچہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ روزہ ایسا از ہے جو سوائے رب کے کسی اَور پر عیاں نہیں ۔ دیگر عبادات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر رمضان کی روح روزہ ہے اور یہی راز ہے۔
روزہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسا راز ہے جو بندے اور رب کے درمیان رہتا ہے۔ اسی لئے رب نے فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر مَیں ہی دوں گا چنانچہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ روزہ ایسا از ہے جو سوائے رب کے کسی اَور پر عیاں نہیں ۔ دیگر عبادات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر رمضان کی روح روزہ ہے اور یہی راز ہے۔ نہ تو کسی روزہ دار کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ روزہ سے ہے نہ ہی کسی غیر روزہ دار کی پیشانی پر تحریر ہوتا ہے کہ وہ روزہ سے نہیں ہے۔ کوئی شخص روزہ سے ہے یا نہیں ہے یہ معاملہ بندے اور رب کے درمیان رہتا ہے جس کے تعلق سے پوری دُنیا بھی کہے کہ فلاں شخص نے روزہ رکھا ہے تو وہ بات حتمی نہیں ہوسکتی اور اگر پوری دُنیا اُس کے بارے میں کہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا ہے تو وہ بات بھی حتمی نہیں ہوسکتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ روزہ دکھائی نہیں دیتا۔ روزہ رمضان کی روح ہے اور جس طرح روح دکھائی نہیں دیتی اسی طرح روزہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ تو پھر رمضان میں کیا ایسا ہے جو دکھائی دیتا ہے؟
روزہ داروں کا سحری کیلئے جاگنا، سحری کے بعد نماز فجر کیلئے یکجا ہونا، دیگر نمازوں کیلئے اکٹھا ہونا، افطاری کی تیاری اور مغرب سے قبل کی ہماہمی، افطار کرتے ہوئے بندگان خدا، نماز تراویح کیلئے ہونے والا مجمع، یہ سب دکھائی دیتا ہے۔ اب نظم و ضبط اور ترتیب و تنظیم کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو روزہ میں نظم و ضبط بھی ہے اور ترتیب و تنظیم بھی۔ مثلاً سحری کا دورانیہ طے ہے جس میں خود ساختہ تبدیلی نہیں ہوسکتی، روزہ میں کچھ کھایا پیا نہیں جاسکتا یہ بھی طے ہے، غروب آفتاب سے قبل روزہ نہیں کھل سکتا یہ بھی طے ہے، گویا جو چیز دکھائی نہیں دیتی (روزہ) وہ ترتیب و تنظیم اور نظم و ضبط کے اعتبار سے بالکل طے شدہ ہے جس میں معمولی سی بھی تحریف نہیں ہوسکتی مگر جو چیز دکھائی دیتی ہے (روزہ اور رمضان سے متعلق سرگرمیاں ) اس میں نہ تو ترتیب ہے نہ ہی تنظیم۔ مساجد کے باہر بے ہنگم بھیڑ، موٹر گاڑیوں کا اژدہام، مساجد کے باہر بھیک مانگنے والوں کا جم غفیر، نمازوں کے بعد مصلیان کا گروپ کی شکل میں کھڑا رہنا، مسلم محلوں میں دکانوں اور ہوٹلوں کا دیر رات تک کھلا رہنا، وغیرہ۔ روزہ مکمل ڈسپلن ہے لیکن متعلقہ سرگرمیاں ڈسپلن کے عین منافی ہیں ۔ کیا اِس تضاد پر غور نہیں کیا جانا چاہئے؟ مکمل ڈسپلن کا مظہر روزہ دینی فریضہ ہے جبکہ ڈسپلن سے عاریمتعلقہ سرگرمیوں پر توجہ دےکر اُنہیں ڈسپلن کے دائرے میں لانا دنیوی فریضہ ہے۔
یاد رہنا چاہئے کہ برادران وطن میں بہت سے لوگ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ اُن سے زیادہ ایسے ہیں جو ونااقف نہیں ہیں مگر رمضان اور روزہ کی حقیقت کو مسلمانوں کے طور طریقوں میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جب تک مسلمانوں کے طور طریقوں میں ڈسپلن نہیں آئے گا تب تک روزہ، رمضان اور دین کے ڈسپلن کا پیغام عام نہیں ہوگااور دیگر قوموں میں روزہ کی حقیقت اور اس کے ڈسپلن کو سمجھنے کی للک پیدا نہیں ہوگی۔ کیا مسلمان نہیں چاہتے کہ اُن کے مذہب کا ڈسپلن اُن کی سماجی زندگی کے ڈسپلن میں ڈھل کر خوشگوار تاثر قائم کرے؟
یقیناً سب چاہیں گے مگر اس کیلئےجو قربانی دینی ہوتی ہے اس کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ اگر اسلام اور مسلموں کے خلاف جاری پروپیگنڈہ کی دھار کو کند کرنا ہے تو ڈسپلن کو زندگی کا لازمی جزو بنانا ہوگا جو دین کا لازمی جزو پہلے سے ہے۔