• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ کی تعمیر نو

Updated: January 18, 2025, 1:49 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ جان و مال کی غیر معمولی تباہی کے بعد ہوا پھر بھی اس کا خیرمقدم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ کم و بیش پندرہ ماہ جاری رہنے والی جنگ میں غزہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ جان و مال کی غیر معمولی تباہی کے بعد ہوا پھر بھی اس کا خیرمقدم کئے بغیر نہیں  رہا جاسکتا۔ کم و بیش پندرہ ماہ جاری رہنے والی جنگ میں  غزہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ کئی بستیاں  ملبے میں  تبدیل ہوچکی ہیں ، ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ مکانات منہدم ہوئے ہیں ۔ سڑکیں  اپنا وجود کھو چکی ہیں ، اسپتال اور اسکول تہس نہس ہوچکے ہیں  اور بجلی نیز پانی کی فراہمی کا پورا نظام درہم برہم ہے۔
  اب جبکہ جنگ بندی معاہدہ ہوچکا ہے، انسانی نقطۂ نظر سے اُن تمام لوگوں  کی واپسی ضروری ہے جو جان بچانے کی کوشش میں  محفوظ مقامات کی جانب گامزن ہوئے تھے۔ دوسرا اہم کام غزہ کی تعمیر نو کا ہے۔ اس کیلئے کثیر رقم درکار ہوگی جو حکومت اسرائیل سے وصول کی جانی چاہئے جس نے اندھا دھند بمباری کے علاوہ کچھ نہیں  کیا۔ اگر اُسے جنگ کرنی تھی تو جنگ کے اُصولوں  ہی کی پاسداری کرلیتا مگر نہ تو اُس نے ایسا کیا نہ ہی عالمی برادری نے اس پر دباؤ ڈالا یا اس کا معاشی بائیکاٹ کرکے اس کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا۔
  مؤرخ جب بھی تاریّخ لکھے گا، یہ سیاہ باب ضرور رقم کرے گا کہ ایسے دور میں  جب اسرائیل انسانی جانوں  کے اتلاف کا تماشا کرنے پر تُلا ہوا تھا، اس کا ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ اگر دس بیس ممالک الٹی میٹم دینے کے انداز میں  الٹی میٹم دیتے اور سختی برتتے تو اس کے ہاتھ پاؤں  کانپ جاتے اور اس میں  مزید بمباری کی سکت باقی نہ رہتی مگر صحیح معنوں  میں  روکنے کی کوشش کسی نے نہیں  کی۔ یہ ایسی دُنیا کا المیہ ہے جو اکیسویں  صدی میں  تکنالوجی کی ترقی کے سبب اپنے وجود پر ناز کررہی ہے اور کوئی نہیں  جانتا کہ تکنالوجی مز ید کتنی ترقی کرے گی اور اپنے وجود پر ناز کرنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا مگر اس دُنیا کو کبھی فرصت نکال کر یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ اگر ایک طرف تکنالوجی حیرت انگیز سرعت کے ساتھ اپنا سفر طے کررہی ہے تو دوسری طرف انسانی زندگی اتنی بے قیمت بنا دی گئی ہے اور انسانی خون اتنا ارزاں  کر دیا گیا ہے کہ غزہ کا ذرہ ذرہ حکومت ِ اسرائیل کے خلاف احتجاج کررہا ہو تو اس پر کسی کو تعجب نہیں  ہوگا۔کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سرزمین نیتن یاہو اور اُن کی کابینہ کو کبھی معاف نہیں  کریگی۔ 
  ہمارا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری حکومت ِ اسرائیل اور اس کے خونخوار فوجیوں  کو نہیں  روک سکی تو کیا اہل غزہ کی دلدہی اور اس علاقے کی تعمیر نو میں  بھی منافقت سے کام لے گی؟ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق غزہ کی ازسر نو تعمیر کیلئے۴۰؍ ارب ڈالر درکار ہونگے۔ یہ کوئی بڑی رقم نہیں  ہے، چند ممالک مل کر اس خرچ کو برداشت کرسکتے ہیں ۔ یاد رہنا چاہئے کہ اس پر بھی حقیقی تلافی نہیں  ہوگی کیونکہ اسرائیل نے صرف مکانوں  اور عمارتوں  ہی کو مسمار نہیں  کیا، اہل غزہ کو شدید روحانی اور ذہنی ایذا بھی پہنچائی ہے۔ اُنہیں  اپنے اہل خاندان کے ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے کا جو صدمہ ہوا ہے اور بچھڑنے والوں  کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ ایسا نقصان ہے کہ جس کی بھرپائی کوئی نہیں  کرسکتا مگر تمام اہل غزہ کو نئے سرے سے ایک پُروقار زندگی کا موقع دیا جاسکتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب زندگی کے اسباب کو دوبارہ جوڑنے کیلئے ایک ایک خاندان کو کثیر رقم فراہم کی جائے۔ اس کیلئے چاہے جتنی بڑی رقم کی ضرورت پیش آئے، یہ عالمی برادری پر قرض ہے ! 

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK