سیاست، آئے دن کوئی نہ کوئی گل کھلاتی ہے۔ اِن دنوں رکن پارلیمان ششی تھرور موضوع بحث ہیں۔ اُن میں اپنی پارٹی کے تئیں بے اطمینانی پائی جارہی ہے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر قیاس آرائیاں شروع ہوں۔
EPAPER
Updated: February 27, 2025, 4:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سیاست، آئے دن کوئی نہ کوئی گل کھلاتی ہے۔ اِن دنوں رکن پارلیمان ششی تھرور موضوع بحث ہیں۔ اُن میں اپنی پارٹی کے تئیں بے اطمینانی پائی جارہی ہے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر قیاس آرائیاں شروع ہوں۔
سیاست، آئے دن کوئی نہ کوئی گل کھلاتی ہے۔ اِن دنوں رکن پارلیمان ششی تھرور موضوع بحث ہیں۔ اُن میں اپنی پارٹی کے تئیں بے اطمینانی پائی جارہی ہے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر قیاس آرائیاں شروع ہوں۔ اُنہوں نے ان قیاس آرائیوں کو روکنے کیلئے واضح بھی کردیا کہ اگر وہ پارٹی سے علاحدہ ہوئے تو کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرینگے، مگر باتیں بنانے اور باتوں کے ذریعہ ماحول بگاڑنے والے اب بھی رُکے نہیں اور ششی تھرور کے فیصلے خود کررہے ہیں۔
بعض حلقے تو یہ تک خیال کررہے ہیں کہ کانگریس کو خیرباد کہہ کر وہ حکمراں پارٹی کا حصہ بن جائینگے۔ ہرچند کہ ماضی میں ایسا ہوا ہے اور بہت سے لیڈران، جن میں چند ممتاز لیڈران بھی شامل ہیں، کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں یا کچھ ایسا کرچکے ہیں جس سے بی جے پی کو فائدہ ہو مگر ششی تھرور ایسا نہیں کرینگے، یہ ہم ہی نہیں کہتے وہ بھی کہہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے متبادلات کا بھی ذکر کردیا ہے کہ اگر انہیں پارٹی چھوڑنی پڑی تو وہ کتابیں لکھیں گے، لیکچرس کیلئے جو دعوتیں اُن کے پاس آتی ہیں اور پارٹی کی مصروفیت کے سبب اکثر دعوتیں وہ قبول نہیں کرپاتے ہیں تو اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ زیادہ جگہوں پر لیکچرس کیلئے جاسکیں گے وغیرہ۔ اس کے باوجود ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ تھرور کانگریس کو الوداع نہیں کہیں گے کیونکہ وہ ان لوگوں میںسے ہیں جنہوں نے کانگریس کو سوچ سمجھ کر قبول کیا اور گزشتہ ایک دہائی کے واقعات اور حالات کے پیش نظر یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں اُن کی ضرورت پہلے جتنی تھی اب اُس سے زیادہ ہے۔
ہوسکتا ہے یہ ہماری خوش گمانی ہو مگر ہماری اس رائے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ پارٹی کی جتنی ضرورت اُنہیں ہے اُس سے زیادہ پارٹی کو اُن کی ضرورت ہے۔ وہ ایک قابل اور قد آور شخصیت ہیں۔ اُن کی انگریزی دانی، اُن کی مقبولیت، جسے فین فالوئنگ کہا جاتا ہے، اُن کی کتابیں، اُن کی تقاریر اور اقوام متحدہ سے وابستگی کا اُن کا پس منظر، یہ سب اتنا اہم ہے کہ پارٹی اُن کی جانب سے نگاہیں پھیر کر اُن کا یا کسی اور کا نہیں، اپنا ہی نقصان کرے گی۔
مگر، کیا کانگریس اس معاملے کو بآسانی سلجھا لے گی؟ یہ مشکل سوال ہے۔ کیرالا، جہاں سے تھرور کا تعلق ہے، کی کانگریس اکائی میں وزارت اعلیٰ کے کئی دعویدار ہیں۔ تھرور کے جاننے ماننے والے اپنے لیڈر کو وزیر اعلیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی رسہ کشی ہے۔ ایسے میں کانگریس ہائی کمان کا فرض ہے کہ اس اندرونی چپقلش کو دور کرائے اور کیرالا کے آئندہ اسمبلی الیکشن کیلئے ریاستی کانگریس کو متحد کرے تاکہ پارٹی میں کوئی دراڑ نہ پڑے اور انتخا بی امکانات متاثر نہ ہوں۔ ملکارجن کھرگے، سونیا،راہل اور پرینکا چاہیں اور قبل از وقت محنت کرلیں توکیرالا کے اس رکن پارلیمان کو کسی بھی ایسے فیصلے سے روکا جاسکتا ہے جس سے پارٹی کو نقصان پہنچے۔ اب سے ٹھیک ایک سال بعد کیرالا میں اسمبلی الیکشن کا بگل بجے گا چنانچہ کانگریس کو بہترین کارکردگی کیلئے ابھی سے محنت شروع کرنی چاہئے۔ ماضی قریب میں کانگریس نے جن ریاستوں میںاقتدار گنوایا ہے یا جیتنے کے یقین کے باوجود شکست سے دوچار ہوئی ہے وہاں دیگر اسبابِ شکست کے علاوہ ایک بڑا سبب پارٹی کا اندرونی خلفشار تھا۔ پارٹی پر یہ بھی الزام لگتا رہا ہے کہ اپنے لوگوں کو سنبھال کر نہیں رکھ پاتی۔کیا اعلیٰ کمان یہ سب سن رہا ہے؟