Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

وقت کو گزرنے دیا جائے یا گزارا جائے؟

Updated: March 23, 2025, 2:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

روزمرہ کی زندگی میں اب ’’پہاڑ جیسا دن‘‘ کوئی نہیں کہتا۔ کسی کو نہیں لگتا کہ وقت گزارے نہیں گزر رہا ہے۔ اس کے برخلاف ہر ایک کو شکایت ہے کہ وقت کیسے گزر جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ اسی طرح اب ’’بیمار کی رات‘‘ بھی کوئی نہیں کہتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 روزمرہ کی زندگی میں  اب ’’پہاڑ جیسا دن‘‘ کوئی نہیں  کہتا۔ کسی کو نہیں  لگتا کہ وقت گزارے نہیں  گزر رہا ہے۔ اس کے برخلاف ہر ایک کو شکایت ہے کہ وقت کیسے گزر جاتا ہے پتہ ہی نہیں  چلتا۔ اسی طرح اب ’’بیمار کی رات‘‘ بھی کوئی نہیں  کہتا۔ سنتے ہیں  کہ پہاڑ جیسا دن اور بیمار کی رات جیسے فقروں  کے ذریعہ ایسے وقت کو بیان کیا جاتا تھا جو گزارے نہیں  گزرتا تھا مگر اب وقت کو گزارنا نہیں  پڑتا، بڑی آسانی سے گزر جاتا ہے۔ اس موضوع پر غور کیجئے تو وقت کی تھیوریز سے بھی کوئی مدد نہیں  ملتی۔سائنس کہتی ہے کہ وقت کا آغاز تیرہ چودہ ارب سال پہلے بگ بینگ سے یعنی اُس دھماکے سے ہوا تھا جو کائنات کے معرض وجود میں  آنے کا سبب بنا۔ سائنس یہ بھی کہتی ہے کہ دُنیا کی ہر چیز حرکت کررہی ہے یا تبدیل ہورہی ہے۔ اسی سفر ِ تغیرات کی پیمائش کا نام وقت ہے۔ 
 سائنسی تھیوریز پر بہتر اظہار خیال وہی لوگ کرسکتے ہیں  جو اس بحر کے غواص ہیں ، ہم نہیں ۔ اس لئے سائنسی تھیوری سے آگے بڑھتے ہوئے اگر ہم اپنے طور پر وقت کو سمجھنے کی کوشش کریں  تو محسوس ہوگا کہ فی زمانہ وقت تیزی سے گزر نہیں  رہا، وقت کی رفتار وہی ہے، فرق یہ آگیا ہے کہ انسانی زندگی تیز رفتار ہوگئی ہے، اس کے مشاغل بڑھ گئے ہیں ، مسافتوں  میں  اضافہ ہوا ہے اور کرنے کے کاموں  کی فہرست طویل ہوگئی ہے اس لئے وقت کے گزرنے کا احساس کم سے کم تر ہوگیا ہے، چنانچہ ہمیں  نہ تو وقت کے گزرنے کا احساس ہوتا ہے نہ ہی دن پہاڑ جیسا اور رات بیمار کی رات جیسی لگتی  ہے۔آپ طویل مسافتی ٹرینوں  کا انتظار کرتے لوگوں  کو دیکھتے ہوں  گے اُن کے چہروں  پر اب پہلے جیسی اُکتاہٹ یا انتظار کی کوفت نظر نہیں  آتی کیونکہ ان کے لئے وقت گزارنا کوئی مسئلہ نہیں  ہے۔ اُن کے پاس اتنے مشاغل ہیں  بلکہ کئی مشغلوں  کا ایک ایسا مشغلہ ہے کہ وقت گزرنا یا وقت کا گزارنا بہت آسان ہے۔ اسی لئے جب ہم کہتے ہیں  کہ ’’اتنا وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں  چلا‘‘ تو اس کی وجہ وقت کا تیزی سے گزرنا نہیں  ہے۔ وقت کا سفر جو صدیوں  سے جاری ہے، اب بھی اپنی رفتار ہی سے آگے بڑھ رہا ہے، تبدیلی ہماری مصروفیت میں  آئی ہے، ہمارے مشاغل و موضوعات میں  آئی ہے۔
 اسی لئے وقت جسے بہرحال گزرنا ہے، تعمیری مشاغل اور مصروفیات میں  گزارا جائے تو اس کے گزرنے کے احساس میں  حصولیابیوں  کا احساس بھی شامل ہوجائیگا بلکہ گزرنے والے وقت کے احساس پرحصولیابیوں  کا احساس غالب آجائیگا کہ جو وقت گزرا، سست رفتاری سے گزرا ہو یا تیزی رفتاری سے، اس میں  ہم نے فلاں ، فلاں  اور فلاں  کام کرلئے۔ جب کاموں  کی تکمیل کے نقطۂ نظر سے وقت کی پیمائش ہوگی تو وقت کی رفتار کا کوئی شکوہ باقی نہیں  رہے گا۔ اس کی جگہ خوشی لے لے گی۔ 
 اس پس منظر میں  یہ کہنا بےجا اور بے محل نہ ہوگا کہ وقت کو گزرنے دینے میں  دانشمندی نہیں  ہے۔ وقت کو گزارنا چاہئے، ایک خاص مقصد یا چند خاص مقاصد کے تحت۔ جب کسی خاص مقصد یا مقاصد کے تحت وقت گزارنے کا تہیہ کیا جائیگا تب لامحالہ یہ خیال بھی آئے گا کہ اسے مقصد سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے ۔ تب اس کیلئے دن بھر کا نظام الاوقا ت مرتب ہوگا اور اس نظام کے تحت وقت کی گردش ہوگی۔ مختصر یہ کہ دُنیا میں  اُنہی قوموں  کو سرخرو اور ممتاز ہوتا ہوا دیکھا گیا جنہوں  نے وقت کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے گزارا، اسے بلاوجہ گزرنے نہیں  دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK