• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تاکہ ہر وقت اُلجھے رہیں عوام!

Updated: September 11, 2024, 1:21 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وقف ترمیمی بل کی ضرورت نہیں تھی مگر پیش کیا گیا۔ اس سے قبل تین طلاق کے بل کی ضرورت نہیں تھی مگر وہ بھی پیش کیا گیا اور پھر قانون میں تبدیل کردیا گیا۔ سی اے اے اور این آر سی کا اعادہ بھی بار بار کیا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وقف ترمیمی بل کی ضرورت نہیں  تھی مگر پیش کیا گیا۔ اس سے قبل تین طلاق کے بل کی ضرورت نہیں  تھی مگر وہ بھی پیش کیا گیا اور پھر قانون میں  تبدیل کردیا گیا۔ سی اے اے اور این آر سی کا اعادہ بھی بار بار کیا جاتا ہے۔ لیٹرل اِنٹری پر اپوزیشن کی جماعتوں  کا کیا رُخ ہوسکتا تھا حکومت کو اس کا اندازہ رہا ہوگا اس کے باوجود نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ کن معاملات اور موضوعات پر اتحادیوں  اور اپوزیشن کو اعتراض ہوسکتا ہے اور کس پر نہیں ، کن معاملات اور موضوعات پر متعلقہ فرقہ اور سماج کی مخالفت کا سامنا ہوگا، حکومت ہر چیز کا ہوم ورک کرچکی ہوتی ہے مگر چونکہ مقصد کسی نہ کسی چیز کو ہمہ وقت موضوع بحث بنائے رکھنا ہے اس لئے سماج میں  اُلجھن اور تشویش پیدا کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے :دَورہ اور دَرد

 اس طرح، کوئی فیصلہ باقی رہے یا بدلنا پڑے، حکومت اُلجھن اور تشویش پیدا کرنے کا اپنا اصل مقصد حاصل کرچکی ہوتی ہے خواہ تین زرعی قوانین کو واپس لینا پڑے، لیٹرل اِنٹری کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنا پڑے یا وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرنا پڑے۔ ان سے قبل کے واقعات کو بھی یاد کیا جاسکتا ہے مثلاً جس عجلت کے ساتھ جی ایس ٹی کا نفاذ کیا گیا تھا، وہ دیدنی تھی۔ بعد ازاں  بے شمار ترامیم کا راستہ اختیار کرنا پڑا، مگر کیا حکومت کو خفت کا سامنا ہوا؟ نہیں ۔ اسی طرح، کیا نوٹ بندی سے بیان کردہ مقاصد پورے ہوئے؟ نہیں  بلکہ پورا ملک بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں  ڈوبا رہا تاہم حکومت کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔ 
 الگ الگ معاملات میں  الگ الگ مقاصد ہوسکتے ہیں  یا ہوتے ہیں  مگر ان سب میں  ایک مشترک قدر ہے۔ وہ یہ کہ کچھ بھی معمول کے مطابق نہ رہے بلکہ وقفے وقفے سے سردوگرم لہر چلتی رہے اور عوام کو یہ پیغام ملتا رہے کہ اہل اقتدار ازحد فعال ہیں ۔ کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگوں  کے پاس خوش ہونے یا ناراض ہونے کا موضوع رہے، اُنہیں  اس کا موقع ملے، بحث و مباحثہ کے دوران سیاسی نقطۂ نظر سے کھینچ تان جاری رہے، حکومت کے پرستاروں  اور ناقدوں  کے درمیان کشیدگی کم نہ ہو، وہ ایک دوسرے کے خلاف بولتے رہیں ، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے رہیں ، سب سے بڑھ کر ہمنوا میڈیا کو گرما گرم بحث کا موقع ملتا رہے،  پرانے تنازعوں  کو نئے سرے سے اُٹھایا جائے اور اس کے ذریعہ ہیجان پیدا کیا جائے۔ عوام میں  وہ افراد جن کا حافظہ غیر معمولی ہے وہ بھی ایک نشست میں  اُن تمام موضوعات اور واقعات کو یاد نہیں  کرسکتے جو گزشتہ دس سال میں  ہوئے۔ اِس دوران کئی ایشوز پر اہل اقتدار یہ پیغام دینے میں  ’’کامیاب‘‘ بھی رہے کہ اُنہوں  نے جو طے کرلیا وہ اُس پر قائم رہتے ہیں  اور کسی طرح کا دباؤ قبول نہیں  کرتے، مثلاً خاتون پہلوانوں  کی تحریک، لکھیم پوری سانحہ کے خلاف اُس و قت کے مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی سے استعفے طلب کرنے کا دباؤ یا وزیر اعظم سے منی پور کے دورہ کا مطالبہ، اہل اقتدار یہ ظاہر کرنے میں  کامیاب رہے کہ اُنہوں  نے کسی طرح کا دباؤ قبول نہیں  کیا۔ ’’چار سو پار‘‘ نہیں  ہوسکا اس لئے تھوڑا بہت فرق ضرور آیا ہے مگر اتنا نہیں  کہ اسے واضح فرق کہا جاسکے۔ اب بھی اہل اقتدار عوام کو اُلجھائے رکھنے کے اپنے طریقے پر قائم ہیں  اور یہ سوچ کر آگے بڑھتے ہیں  کہ پیچھے ہٹنا پڑا تو کوئی بات نہیں  مگر اس کی وجہ سے آگے بڑھنے میں  تامل نہ کیا جائے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK