مہا وکاس اگھاڑی کیوں ہار گئی؟ اتنی شرمناک شکست کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا! اگھاڑی کی پارٹیوں میں تین بڑی پارٹیاں ہیں ، ان میں کسی ایک یا دو کی کارکردگی خراب ہوسکتی ہے، تینوں کی کارکردگی کیوں خراب رہی؟ ٹوٹ پھوٹ شیوسینا اور این سی پی میں ہوئی تھی، کانگریس کیوں بُری طرح لڑکھڑا کر گر پڑی؟
مہا وکاس اگھاڑی کیوں ہار گئی؟ اتنی شرمناک شکست کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا! اگھاڑی کی پارٹیوں میں تین بڑی پارٹیاں ہیں ، ان میں کسی ایک یا دو کی کارکردگی خراب ہوسکتی ہے، تینوں کی کارکردگی کیوں خراب رہی؟ ٹوٹ پھوٹ شیوسینا اور این سی پی میں ہوئی تھی، کانگریس کیوں بُری طرح لڑکھڑا کر گر پڑی؟ اس نے تو چھ ماہ قبل لوک سبھا انتخابات میں بہت اچھے نتائج دیئے تھے! راہل کی بھارت جوڑو یاترا سے مہاراشٹر میں بھی بہت خوشگوار ماحول بنا تھا، کیا اس کا اثر لوک سبھا الیکشن تک محدود تھا؟
سوالات اور بھی ہیں مثلاً شرد پوار منجھے ہوئے سیاستداں ہیں ، ہوا کا رخ جانتے ہیں ۔ ہوا کا رُخ تو دور رہا وہ طوفان کی آمد کو بھی نہیں بھانپ سکے، کیوں ؟ ملکارجن کھرگے بھی پوار کی طرح دشت سیاست کی سیاحی کا کم و بیش پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں ، انہیں بھی کچھ نہیں سمجھا؟ پوار سے پہلے ادھو ٹھاکرے کی پارٹی چھینی گئی تھی، کیا اہل مہاراشٹر کو ادھو سے ہمدردی نہیں جن کا سیاسی کرئیر داؤ پر لگ گیا؟ اگر مہا وکاس کی تینوں پارٹیوں کی خراب کارکردگی ناقابل فہم ہے تو مہایوتی کی تینوں پارٹیوں کی شاندار کارکردگی بھی ناقابل فہم ہے۔ مان لیا کہ بی جے پی چھوٹے سے چھوٹا الیکشن جیتنے کیلئے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے، اُسے الیکشن کے خوردبینی انتظامات کا فائدہ ملا جو ملتا ہی رہتا ہے، اور شندے کی شیوسینا کو لاڈلی بہن یوجنا کا فائدہ ہوا مگر اجیت پوار؟ وہ تو اپنے گڑھ میں لوک سبھا کی سیٹ نہیں نکال پائے، اپنی اہلیہ کو انتخابی میدان میں لانے پر مجبور ہوئے، وہ بھی ہار گئیں ، وہی اجیت پوار جن کی شمولیت سے حلیف پارٹیاں خوش نہیں تھیں ، خود وہ بھی اپنے حلیفوں سے ناراض تھے، ان میں اچانک اتنی جان کیسے پڑ گئی کہ ۴۱؍ سیٹوں پر قابض ہوگئے؟
تین بڑی پارٹیاں جن میں سے دو اِسی مہاراشٹر کی سرزمین پر جنم لینے والے پارٹیاں ہیں وہ تینو ں ہار گئیں ؟ ایسا تو کبڈی میں بھی نہیں ہوتا کہ ہارنے والی ٹیم کا ہر کھلاڑی نہایت بودا اور کمزور ہو اور انہیں پلک جھپکتے آؤٹ ہو جائے؟ مگر اپنے مہاراشٹر میں ایسا ہوا ہے، ایک اتحاد کی تینوں پارٹیاں عرش پر اور دوسرے اتحاد کی تینوں پارٹیاں فرش پر ہیں ، ہم نہیں جانتے مگر لگتا ہے کہ بی جے پی، شیوسینا (شندے) اور این سی پی (اجیت) کے ارباب ِ اقتدار خود بھی حیران ہونگے کہ ہم تو جیتنے کیلئے لڑرہے تھے، ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ ہم تو جیتے جتائے تھے!
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے یکطرفہ نتائج پر غور کیجئے تو ایسے کئی سوالات اور شبہات ذہن میں ابھریں گے اور یہ تو یاد آئیگا کہ کانٹے کی ٹکر تھی مگر یہ سمجھ میں نہیں آئیگا کہ کانٹا کب ہٹ گیا اور ٹکر کیوں نہیں ہوئی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آئیگا کہ جب اتنا ہی یکطرفہ معاملہ تھا تو شیوسینا ادھو کو ۲۰، کانگریس کو ۱۶؍ اور این سی پی شرد پوار کو ۱۰؍ سیٹیں کیسے مل گئیں ، کہیں ان ۴۶؍ سیٹوں پر ’’گڑبڑ جھالا‘‘ تو نہیں ہوا!
مشکل یہ ہے کہ سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کہیں نہیں اور کبھی نہیں ہوتی۔ لوک سبھا آگیا تو راجستھان، چھتیس گڑھ اور ایم پی پیچھے چلےگئے اور مہاراشٹر آگیا تو ہریانہ پیچھے چلا گیا۔ اب یہی ہونے لگا ہے۔ ہارنے والی پارٹیوں کے حامیوں کے پاس بھی سوائے متعلقہ پارٹیوں کو کوسنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ اپنی ہی پسندیدہ پارٹیوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور مخالف پارٹیوں کا غصہ اپنی پارٹی پر نکالتے ہیں ۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسے مرے پر سو دُرّے کہتے ہیں ۔