• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ترقیات کا منفی پہلو

Updated: January 20, 2025, 1:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

انسانی زندگی کی ارزانی کچھ تو چاروں طرف پھیلی ہوئی بے حسی کی وجہ سے ہے جس کے مظاہر ہمیں چونکاتے ضرور ہیں مگر تھوڑی دیر بعد ہمیں اپنا چونکنا بھی یاد نہیں رہ جاتا اور کچھ اس وجہ سے کہ ترقیاتی پیش رفتوں کا اپنا بھی ایک منفی پہلو ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 انسانی زندگی کی ارزانی کچھ تو چاروں  طرف پھیلی ہوئی بے حسی کی وجہ سے ہے جس کے مظاہر ہمیں  چونکاتے ضرور ہیں  مگر تھوڑی دیر بعد ہمیں اپنا چونکنا بھی یاد نہیں  رہ جاتا اور کچھ اس وجہ سے کہ ترقیاتی پیش رفتوں  کا اپنا بھی ایک منفی پہلو ہے۔ ان پیش رفتوں  کی مثال چراغ کی ہے جو چاہے جتنی روشنی لُٹائے، اس کے نیچے اندھیرا ہی رہتا ہے۔ چاروں  طرف پھیلی ہوئی بے حسی کے مظاہر ایک نہیں  درجنوں  ہیں ۔ وہ چاہے تغذیہ کی کمی کے سبب بچوں  کی اموات ہوں  یا اسپتالوں  میں  ڈاکٹر نہ ہونے کے سبب اُن مریضوں  کا موت سے بغلگیر ہوجانا ہو جن کی جان بچائی جاسکتی تھی، وہ چاہے مین ہول میں  اُترنے والے صفائی مزدوروں  کا جان سے جانا ہو یا کسی اور مقصد کے تحت کھودے گئے وسیع و عریض گڑھے میں  کسی کا گر پڑنا اور راہی ٔ ملک عدم ہوجانا۔ اس سلسلے کے اور بھی کئی معاملات اور واقعات کی مثال دی جاسکتی ہے مگر ہم سمجھتے ہیں  کہ اس کی ضرورت نہیں  ہے کیونکہ آئے دن کے واقعات کسی سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں ۔ دوسرا ہے ترقیاتی پیش رفتوں  کے منفی پہلو۔ اس کی، دل دہلا دینے والی ایک مثال ہمیں  گزشتہ دنوں  اُس خبر سے ملی جس میں  بتایا گیا تھا کہ یمنا ایکسپریس وے پر کسی شخص کی لاش ایک کے بعد دوسری گاڑی سے ٹکراتی رہی اور یہ عمل کافی دیر تک جاری رہا، کسی کو احساس نہیں  ہوا کہ گاڑی سے کسی کی لاش ٹکرا رہی ہے۔ کہرا تھا اس لئے کچھ دکھائی بھی نہ دیتا رہا ہوگا۔ بہرکیف جب کہرا چھٹا تو آتی جاتی گاڑیوں  کے مالکان یا ڈرائیوروں  نے یہ کیفیت دیکھی تو حکام کو مطلع کیا مگر تب تک لاش کے چیتھڑے اُڑ چکے تھے۔ خبروں  کے ذریعہ معلوم ہوا کہ جب ٹریفک کے ذمہ داران وہاں  تک پہنچے اور لاش کے ٹکڑے یکجا کرنے کی کوشش کی تو وہ خود بھی دہل گئے۔ اُنہوں  نے اعتراف کیا کہ آج تک ایسا حادثہ نہیں  دیکھا۔ اس واقعہ کے پس منظر میں  محسوس کیجئے کہ حکومت نے ایکسپریس وے کیوں  بنائے؟ تاکہ آمدورفت کی سہولت ہو اور کم وقت میں  زیادہ مسافت طے کی جاسکے۔ روزانہ ہزاروں  گاڑیاں  ایسی شاہراہوں  سے گزرتی ہیں  اور منزل مقصود پر پہنچنے والے لوگ وقت بچنے کی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں ۔ مذکورہ حادثہ چونکہ کہرے کی وجہ سے ہوا اس لئے کسی گاڑی بان کو اس کا ذمہ دار نہیں  ٹھہرایا جاسکتا۔ مگر حادثہ ہوا اور کچھ اس طرح ہوا کہ دیر تک لاش موٹر گاڑیوں  کی زد میں  اُسی طرح آتی رہی جیسے فٹ بال کھلاڑیوں  کی ٹھوکر وں  کی زد پر رہتا ہے۔ 
 جتنی نئی سڑکیں  تعمیر ہورہی ہیں  اور آمدورفت کی جتنی سہولتوں  پر توجہ دی جارہی ہے، اُتنا ہی حادثات بڑھ رہے ہیں ۔ بعض حادثات اتنے خوفناک ہوتے ہیں  کہ روح کانپ جاتی ہے مگر ان کا حل کسی کو سجھائی نہیں  دے رہا ہے۔ گاڑیاں  وقت کی ضرورت ہیں  مگر حادثات کی شکل میں  ان کے عواقب منظر عام پر آتے ہیں  تو انسانی زندگی کی ارزانی رُلادیتی ہے۔ سڑک حادثات میں  کبھی تو انسانی غلطی ہوتی ہے اور کبھی نہیں  ہوتی مگر تغدیہ کی کمی، اسپتالوں  میں  ڈاکٹروں  کی عدم موجودگی، مین ہولس کا مسئلہ اور دیگر واقعات میں  یقیناً انسانی غلطی کا دخل ہے اور ایسی غلطی سے ہونے والی اموات پر لازم ہے کہ خاطی کو قرار واقعی سزا ملے تاکہ دوسروں  کو سبق ملے۔ جہاں  تک حادثات کا تعلق ہے، اُنہیں  بھی بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اگر ٹریفک کے اُصولوں  کی پابندی لازم کرنے کا مؤثر نظم کیا جائے اور ٹریفک کے محکمے کی بدعنوانی ختم ہو۔ سڑکوں  پر انسانی زندگی کا روندا جانا گوارا نہیں  ہوسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK