Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جنگ چلتی رہے تو بہتر ہے‘‘ کا نظریہ

Updated: May 29, 2024, 1:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اس نظریہ کے تحت دُنیا کی بڑی طاقتیں بالخصوص وہ جو اسلحہ سازی میں طاق ہیں ، ایک کے بعد دوسری جنگ کا سودا اپنے سروں میں سمائے رکھتی ہیں چنانچہ خود بھی لڑتی ہیں اور دوسرے ملکوں کو بھی لڑواتی رہتی ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اس نظریہ کے تحت دُنیا کی بڑی طاقتیں  بالخصوص وہ جو اسلحہ سازی میں  طاق ہیں ، ایک کے بعد دوسری جنگ کا سودا اپنے سروں  میں  سمائے رکھتی ہیں  چنانچہ خود بھی لڑتی ہیں  اور دوسرے ملکوں  کو بھی لڑواتی رہتی ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری دُنیا کا دفاعی بجٹ غیر معمولی حدوں  کو پہنچ چکا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں  عالمی فی کس دفاعی خرچ ۳۰۶؍ڈالر تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ملکوں  کے مشترکہ دفاعی بجٹ کو جوڑا جائے اور پوری دُنیا کی آبادی سے تقسیم کیا جائے تو ہر انسان پر ۳۰۶؍ڈالر یعنی ۲۴؍ ہزار ۴۸۰؍ روپے دفاعی خرچ آئے گا۔ ایک ایک انسان میں  بٹ کر یہ رقم بہت کم لگتی ہے مگر عالمی سطح پر یہ غیر معمولی رقم ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک روپیہ معمولی رقم ہے مگر ہندوستان کا ہر شہری یہ معمولی رقم کسی جگہ جمع کرے تو اُس جگہ پر ایک سو چالیس کروڑ روپے کا ڈھیر لگ جائیگا۔ 
 اِس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ نہ تو یوکرین کی جنگ رُکنے کا نام لے رہی ہے نہ ہی اسرائیل غزہ میں  اپنی شیطنت سے باز آنے کو تیار ہے جبکہ نہ تو یوکرین کی جنگ سے یورپی ملکوں  کو کوئی فائدہ ہے نہ ہی غزہ کو برباد کرنے کے بعد پھر برباد کرنے کے جنون سے اسرائیل کی سرحدوں  میں  امن و سلامتی کے پھول مہکنے لگیں  گے۔ یہ حالت جنگ میں  رہنے، اسلحہ کو زنگ کھانے سے بچانے، جدید تر اسلحہ کو آزمانے اور دیگر ملکوں  کو ڈرانے کے حربے ہیں  جو کسی تعارف کے محتاج نہیں  رہ گئے ہیں ۔ اسی کی وجہ سے چند ممالک اسلحہ کی دکانیں  سجاتے ہیں  اور بہت سے ممالک ان دکانوں  سے اسلحہ کی خریداری میں  فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اسرائیل جنگ اس لئےنہیں  روکنا چاہتا کہ امریکہ اپنا اسلحہ کھپانا چاہتا ہے جس کیلئے وہ اسرائیل کو قرض بھی دیتا ہے اور اسلحہ بھی۔ اگر روس کے ساتھ جنگ کی وجہ سے یوکرین کا دفاعی بجٹ ۶۴۰؍ فیصد بڑھا ہے تو غزہ کو تہس نہس کرنے کیلئے تل ابیب کا دفاعی خرچ بھی آسمان تک پہنچ چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ۷؍اکتوبر ۲۳ء سے پہلے اسرائیل کا دفاعی بجٹ ۱ء۸؍ ارب ڈالر تھا جو حماس کے حملے کے بعد ۴ء۷؍ بلین ڈالر ہوچکا ہے۔ جو باتیں  افہام و تفہیم کے ذریعہ یا نیز جیو اور جینے دو کے   فارمولے کے تحت بہت آسانی سے مانی اور منوائی جاسکتی ہیں  اُنہیں  اس حد تک طول دینا کہ بمباری کی نوبت آجائے اور پھر جنگ جیسی جنگ چھڑ جائے محض دیوانہ پن ہے جو بہت سے ملکوں  کیلئے خود کو متحرک رکھنے کا بہانہ ہے۔
 اسی جنگی جنون کا نتیجہ ہے کہ دُنیا جتنی امن کی باتیں  کرتی ہے اُس سے زیادہ جنگ کے منصوبے بناتی ہے۔ دفاع پر غیر معمولی رقمیں  خرچ کرنے والے ملکوں  کا جائزہ لے لیجئے آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ سات آٹھ ممالک ایسے ہیں  جو دفاع پر حد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں ۔ ان میں  پہلا مقام امریکہ کا ہے۔ اس کے بعد چین اور روس کا نمبر آتا ہے۔ چوتھے نمبر پر ہندوستان ہے۔ اگر امریکہ ۹۱۶؍بلین ڈالر خرچ کرتا ہے تو ہندوستان ۸۳ء۶؍ بلین ڈالر۔ کیا کبھی ان ملکوں  نے جو بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں ، سوچا ہے کہ اسی دُنیا میں  بہت سے ملک ایسے بھی ہیں  جن کا دفاعی خرچ بہت کم ہے؟ ہوسکتا ہے اس کا جواب یہ دیا جائے کہ اُن کے ساتھ ویسے خطرات نہیں  ہیں ۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ ایسا ہے تو یہ ایک وجہ ہوئی کم دفاعی خرچ کی۔ اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہونگی۔ کیا نہیں  ہوسکتیں ؟ اس پر غور کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اسلحہ کی دوڑ اور جنگ و جدال کاجنون روکنے کیلئے عوام بیدار ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK