• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قومی بجٹ اور عوام

Updated: July 24, 2024, 1:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

قومی بجٹ پیش ہونے کے بعد عام آدمی اس میں جو کچھ تلاش کرتا ہے وہ درج ذیل ہے: (۱) بجٹ اُن مسائل کے حل کی جانب پیش رفت کررہا ہے یا نہیں جو آبادی کے بڑے طبقے کیلئے پریشان کن ہیں (۲) بجٹ میں ایسی تدابیر اختیار کی گئی ہیں یا نہیں جن سے عام آدمی راحت محسوس کرے اور مہینے کے اخیر میں دو پیسے بچا سکے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 قومی بجٹ پیش ہونے کے بعد عام آدمی اس میں  جو کچھ تلاش کرتا ہے وہ درج ذیل ہے: (۱) بجٹ اُن مسائل کے حل کی جانب پیش رفت کررہا ہے یا نہیں  جو آبادی کے بڑے طبقے کیلئے پریشان کن ہیں  (۲) بجٹ میں  ایسی تدابیر اختیار کی گئی ہیں  یا نہیں  جن سے عام آدمی راحت محسوس کرے اور مہینے کے اخیر میں  دو پیسے بچا سکے، اور (۳) بجٹ ملک کی معاشی خوشحالی اور مالی استحکام کی ضمانت دے رہا ہے یا نہیں ۔ یہ اسلئے کہ ملک معاشی اور مالی طور پر مستحکم ہوگا تو عوام بھی فیضیاب ہونگے اور نئی نسل کو ترقی کے دستیاب مواقع میں  سے اپنے لئے بہتر متبادل کے انتخاب کی سہولت حاصل ہوگی۔ کیا جو بجٹ پیش ہوا، اِن توقعات پر پورا اُترتا ہے؟ 
 پہلے نکتے پر غور کیا جائے تو مہنگائی، بے روزگاری اور ان دو مسائل کے سبب بڑھتے سماجی عدم تحفظ کے پیش نظر جائزہ لینا ہوگا کہ آیا بجٹ اِن مسائل سے عوام کو راحت دلانے میں  معاون ہوگا؟ اس کا جواب نفی میں  ہے کیونکہ مہنگائی کم کرنے کا ہدف طے کرنا ایک بات ہے اور ہدف پانے کیلئے مناسب تدابیر اختیار کرنا دوسری بات ہے۔ بجٹ سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ افراطِ زر کس حد تک کم کرنا مقصود ہے مگر اس ہدف کو پانے کی کوشش کیسے ہوگی اس سوال کا جواب نہیں  ملتا۔ قیمتیں  بڑھانے میں  اہم رول جی ایس ٹی کا ہے جو لازمی اشیاء پر بھی واجب الادا ہے۔ اس میں  خاطرخواہ تخفیف ہونی چاہئے تھی جو نہیں  ہوئی۔ زراعتی شعبہ احتجاج پر احتجاج کررہا ہے مگر اسے کوئی قابل ذکر راحت نہیں  ملی اسلئے یہ توقع نہیں  کی جاسکتی کہ اناج، دالیں ، خوردنی تیل وغیرہ کی قیمتیں  کم ہونگی۔ رہا سوال بے روزگاری کا تو اس کی شرح گھٹانے کیلئے حکومت نے ایک بار پھر انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ پر زور دیا ہے جبکہ گزشتہ سال کے بجٹ میں  بھی اسی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس سے روزگار کے حسب توقع مواقع پیدا نہیں  ہوئے۔ سب سے زیادہ روزگار کے ضامن شعبے اس بجٹ میں  بھی حکومت کے تغافل کا شکار ہیں  چنانچہ پہلا معیار کہ پریشان کن عوامی مسائل کے حل کیلئے بجٹ میں  کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت نے کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں  کی ہے جسے اُمید افزاء کہا جاسکے۔
 دوسرے معیار کا تعلق آمدنی میں  اضافہ اور خرچ میں  تخفیف سے ہے تاکہ دو پیسے بچائے جاسکیں ۔ کسانوں  کی آمدنی دوگنا کرنے کا وعدہ آج تک پوا نہیں  ہوا۔ کووڈ کے دور میں  لاکھوں  صنعتی اکائیاں  از حد متاثر رہیں  اُن کی بحالی اور جو کاروبار ختم ہوگئے اُن کی بازآبادکاری ہنوز معمہ ہے۔ زیر بحث بجٹ یہ اُمید بندھانے میں  ناکام ہے کہ چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروباری و صنعتی اکائیاں  دوبارہ سرگرم اور متحرک ہونگی۔ آمدنی کم ہو اور اخراجات اٹل ہوں  تو مہینے کے آخر میں  کچھ بچانا ممکن نہیں  ہوتا۔گزشتہ تین چار برسوں  میں  یہی تو ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو متوسط طبقے میں  شمار کئے جاتے تھے، غربت کی لکیر کے قریب پہنچ گئے۔
 تیسرے معیار (معاشی خوشحالی اور مالی استحکام) کو پانے میں  کامیابی تبھی مل سکتی ہے جب حکومت قرض کم لے، درآمدات کی حوصلہ شکنی کرے، برآمدات بڑھائے اور عوامی آمدنی میں  اضافہ کو یقینی بناتے ہوئے بازار میں  طلب (ڈیمانڈ) کو مضبوط کرے۔ ماہرین بتاتے ہیں  کہ بازار میں  طلب کم کم ہے اس لئے یہ اُمید کرنا مشکل ہے کہ ملک کی معاشی طاقت میں  اضافہ ہوگا۔ ان چند باتوں  کے سبب محسوس ہوتا ہے کہ معاشی حالات بدلنے میں  یہ بجٹ کوئی کردار ادا نہیں  کرسکتا ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK