• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئی حکومت اور روزگار کا پرانا مسئلہ

Updated: June 26, 2024, 1:23 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

نیتی آیوگ کے سابق نائب چیئرمین راجیو کمار نے دو ہفتے قبل مودی حکومت کو مشورہ دیا کہ اُسے اپنی تیسری میعاد میں ، جس کی ابتداء ہوچکی ہے، سب سے زیادہ جس مسئلہ پر توجہ دینی چاہئے وہ بے روزگاری ہے مگر اس میں بھی اولین توجہ کا مرکز غیر منظم زمرہ ہونا چاہئے جو کووڈ کی وباء کے بعد سے غیر معمولی طور پر پریشان ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 نیتی آیوگ کے سابق نائب چیئرمین راجیو کمار نے دو ہفتے قبل مودی حکومت کو مشورہ دیا کہ اُسے اپنی تیسری میعاد میں  ، جس کی ابتداء ہوچکی ہے، سب سے زیادہ جس مسئلہ پر توجہ دینی چاہئے وہ بے روزگاری ہے مگر اس میں   بھی اولین توجہ کا مرکز غیر منظم زمرہ ہونا چاہئے جو کووڈ کی وباء کے بعد سے غیر معمولی طور پر پریشان ہے۔ اس سلسلے میں   اُنہو ں  نے بڑے پتے کی بات یہ کہی اور ہم اُن کا بیان من و عن ترجمہ کررہے ہیں   کہ ’’عالمی تنظیم ِ محنت (انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے بے روزگار عوام میں   نوجوانوں   کی تعداد ۸۳؍ فیصد ہے۔ کووڈ کے دوران اور بعد میں   بڑی صنعتوں   او رکمپنیوں   کی کارکردگی اچھی رہی، ہنرمندوں   کی کارکردگی بھی اطمینان بخش تھی لیکن سماج کا غیر ہنرمند طبقہ بے روزگار ہوا اور بہت سی فرمیں   گنجائش بڑھانے کیلئے سخت مشکلات سے گزر تی رہیں  ۔‘‘
  یہ کہتے ہوئے اُنہوں   نے غیر منظم زمرہ اور چھوٹے متوسط طبقے کی کمپنیوں   (ایس ایم ای) کو طاقت دینے اور ایسا ماحول بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں   ان کمپنیوں   کو پیداوار نیز روزگار بڑھانے کا بھرپور موقع ملے۔ اس کیلئے اُنہوں   نے اُن بندشوں   کو دور کرنے کی صلاح دی جو چھوٹی صنعتوں   کے راستے کی دیوار بن جاتی ہیں   اور یہ زمرہ اُتنا بھی نہیں   کرپاتا جتنا کہ اُس کے اختیار میں   ہوسکتا ہے۔ 
 غیر منظم زمرہ کی پریشانیوں   کا ثبوت اُن اعدادوشمار سے بھی ملتا ہے جو انڈیا ریٹنگس اینڈ ریسرچ نے ایک مطالعے کے بعد جاری کئے ہیں  ۔ اس ادارہ کا کہنا ہے کہ ملک کی مجموعی پیداوار میں   غیر منظم زمرہ کا حصہ مالی سال ۲۰۱۸ء میں   ۳۴ء۹؍ فیصد تھا جو مالی سال ۲۰۲۳ء میں   ۳۳؍ فیصد ہوگیا۔ ’’دی پرنٹ‘‘ میں   شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس شعبے پر پہلے نوٹ بندی کی مار پڑی، پھر جی ایس ٹی نے ضرب لگائی اور پھر کووڈ نے اس کا بھرکس نکال دیا۔طرفہ تماشا یہ تھا کہ کووڈ کی وجہ سے منظم زمرہ کو تو فائدہ پہنچا مگر غیر منظم زمرہ کی کارکردگی غیر معمولی طور پر متاثر ہوئی۔ اسی کے باعث بے روزگاری نے اس حد تک پاؤں   پسارے کہ حال ہی میں   مکمل ہوئے پارلیمانی انتخابات پر یہ مسئلہ چھایا رہا۔ حکمراں   جماعت نے اس سے صرفِ نظر کی کوشش میں   کوئی کسر باقی نہیں   رکھی مگر کامیاب نہیں   ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے کم و بیش ۷۰؍ سیٹوں   کا نقصان اُٹھانا پڑا۔
 غیر منظم زمرہ کتنا اہم ہے، بالخصوص روزگار کے مواقع کے نقطۂ نظر سے، یہ بات سمجھنے کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ ملک میں   زراعتی روزگار کے ۹۰؍ فیصد مواقع اور غیر زراعتی روزگار کے ۷۰؍ فیصد مواقع اِسی زمرہ کی دین ہوتے ہیں  ۔ یہ زمرہ پوری طاقت کے ساتھ سرگرم عمل ہوگا تو بے روزگاری کم یا ختم کرنے میں   اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ یہ تبھی ہوگا جب اس کیلئے کچھ کیا جائے گا۔ 
 مودی حکومت کو اپنی تیسری میعاد میں   روزگار کا مسئلہ ترجیحی بنیاد پر حل کرنا ہوگا اور اس کی کلید غیر منظم زمرہ ہے۔ گھریلو صنعتوں  ،  چھوٹی صنعتوں  ، متوسط درجے کے کارخانوں   وغیرہ کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا تو یہ زمرہ پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ کھڑا ہوجائیگا۔ جو نوبت آئی وہ ہرگز نہ آتی اگر یہ حکومت گزشتہ دس سال میں   بڑے صنعتی گھرانوں   اور اُتنی ہی بڑی تجارتی اکائیوں   ہی کو نوازنے کا ایجنڈا نہ بناتی۔ اگر اب بھی غیرمنظم زمرہ اولین توجہ کا مستحق نہ سمجھا گیا تو خدانخواستہ سماج میں  انتشار پھیل سکتا ہے اور حالات کو اُس حد تک نہیں   جانے دینا چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK