Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایس سی، ایس ٹی کی مظلومیت

Updated: April 08, 2025, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

سماجی مسائل کے حل کیلئے قانون تب بنایا جاتا ہے جب اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور موجودہ قوانین ناکافی ثابت ہورہے ہوتے ہیں مگر قانون کے نفاذ کی خواہش نہ ہونے یا نفاذ پر فریق مخالف کا اثرورسوخ حاوی ہوجائے تو یہ عمل قانون کو شرمندہ کرنے جیسا ہوتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 سماجی مسائل کے حل کیلئے قانون تب بنایا جاتا ہے جب اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور موجودہ قوانین ناکافی ثابت ہورہے ہوتے ہیں  مگر قانون کے نفاذ کی خواہش نہ ہونے یا نفاذ پر فریق مخالف کا اثرورسوخ حاوی ہوجائے تو یہ عمل قانون کو شرمندہ کرنے جیسا ہوتا ہے۔۱۹۸۹ء کا وہ قانون جو ایس سی، ایس ٹی پر مظالم کے خلاف بنایا گیا تھا، اپنے وضع کئے جانے کے ۳۵؍ سال بعد بھی نہ تو ظلم کو اپنا حق سمجھنے والوں  کی تنبیہ کا سبب بن سکا نہ ہی صحیح طریقے سے نافذ ہوکر مظلوموں  کے حق میں  نعمت ثابت ہوا۔ اس ایکٹ میں  صاف طور پر درج ہے کہ کسی ایس سی، ایس ٹی کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے گھمانا، سر مونڈھنا، مونچھیں  صاف کروانا، ان کی بستیوں  میں  پینے کے پانی کو آلودہ کرنا، سب کے استعمال کی سہولتیں  مثلاً انتم سنسکار کیلئے مخصوص جگہ، ندی، کنواں  وغیرہ کے استعمال سے روکنا، بارات نکالنے سے منع کرنا، دولہا کے گھوڑے پر بیٹھنے کو مسئلہ بنانا وغیرہ خلافِ قانون ہوگا۔ مگر گزشتہ ۳۵؍ سال میں  اس نوع کی اِتنی خبریں  منظر عام پر آئی ہیں  کہ انہیں  شمار تک نہیں  کیا جاسکتا۔ بعض واقعات بظاہر چھوٹی موٹی واردات معلوم ہوتے ہیں  مگر اُن کا ایس سی، ایس ٹی کی نفسیات پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جس دور میں  قانون بنا تھا، تب گمان یہ رہا ہوگا کہ اس کی وجہ سے جرائم رُکیں  گے مگر خبریں  اور عدالتوں  میں  زیر التواء مقدمات گواہ ہیں  کہ ایس سی، ایس ٹی کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت تبدیل نہیں  ہوئی ہے۔
 سماج میں  سب کو برابر سمجھنے کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے جو کچھ کیا جانا چاہئے تھا، نہ تو وہ کیا گیا نہ ہی کسی اصلاحی مہم کو طویل عرصے تک ایک تحریک کے طور پر جاری رکھا گیا۔ ا سکی وجہ سماجی نابرابری کو جاری و ساری رکھنے کی وہ کوششیں  ہیں  جن کے تحت اعلیٰ طبقات کو زیادہ مواقع دیئے جاتے ہیں  اور نچلے طبقات کے پیروں  تلے سے زمین کھینچی جاتی ہے۔یہ آئے دن ہوتا ہے بلکہ ملک کے طول و عرض میں  کسی نہ کسی جگہ روزانہ ہوتا ہے۔ کبھی خبر منظر عام پر آتی ہےتو کبھی دَبا دی جاتی ہے۔ سچ پوچھئے تو مشتہر ہونے والی خبریں  کم ہوتی ہیں ، دَبا دی جانے خبریں  زیادہ ہوتی ہیں ۔ چھوا چھوت کو ختم کیا جاچکا ہے مگر کاغذ پر۔ عملاً یہ رجحان آج بھی ہے اور اُتنا ہی  خوفناک ہے جتنا پہلے تھا۔ تین چار روز قبل ضلع مین پوری (یوپی) کے گاؤں  ہری پور میں  پندرہ سالہ دلت طالب علم کو، جس کا تعلق گیارہویں  جماعت سے ہے، محض اس لئے بُری طرح پیٹاگیا کہ اُس نے ٹیچر کی پانی کی بوتل کو ہاتھ لگا دیا تھا۔ ایک معاصر انگریزی اخبار میں  شائع شدہ بیان کے مطابق ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’’تم نے بوتل کو کیوں  ہاتھ لگایا، اب اُسے کون چھو‘ سکتا ہے، اس سے پانی کون پئے گا۔‘‘
 یہ ذہن کب بدلے گا کہا نہیں  جاسکتا۔ بچپن ہی سے اگر نفرت، حقارت اور تعصب بچوں  کےذہنوں  میں  اُنڈیلا جائیگا او رماحول میں  کسی کے اعلیٰ اور کسی کے ادنیٰ ہونے کا امتیاز پھیلا رہے گا تو اصلاح کا امکان شاید کبھی پیدا نہ ہو۔ قانون اگر صحیح طریقے سے نافذ ہو تو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے مگر یہ سمجھا جائے کہ اس سے کسی کو حقیر سمجھنے کا جذبہ بھی ختم ہوجائیگا اور سب کیلئے دل کشادہ رکھنے کی خو‘ پیدا ہوجائیگی تو یہ خود کو دھوکہ دینے والا خیال ہے۔ سماج میں  موجود طبقاتی تعصب کے خلاف سماج ہی مؤثر ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس جانب قدم اُٹھے، کوئی تحریک اُٹھے، کوئی رہنما اُٹھے، نصاب بدلا جائے، میڈیا کو بروئے کار لایا جائے اور صحتمند پیغام عام ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK