درجنوں خبروں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ پہلگام کی خوفناک اور خونیں واردات کے بعد اہل کشمیر اپنا دل نکال کر پیش کررہے ہیں ، سیاحوں کے تئیں جذبۂ احسانمندی کا اظہار کررہے ہیں اور یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو ہوا، بہت بُرا ہوا، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔
درجنوں خبروں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ پہلگام کی خوفناک اور خونیں واردات کے بعد اہل کشمیر اپنا دل نکال کر پیش کررہے ہیں ، سیاحوں کے تئیں جذبۂ احسانمندی کا اظہار کررہے ہیں اور یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو ہوا، بہت بُرا ہوا، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اُن کے ایک ایک عمل سے واضح ہے کہ اہل کشمیر ملک کے عوام کے ساتھ ہیں ، وہ اُن حملہ آوروں کے ساتھ نہیں ہیں جنہوں نے ۲۸؍ بے گناہوں کی جانیں لیں ۔ اسی لئے وہ حملے کی مذمت اور متوفین کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کی غرض سے سڑکوں پر بھی اُترے۔
بقول عمر عبداللہ ’’کٹھوعہ سے کپواڑہ تک کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں عوام نے پہلگام حملے کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔‘‘ کشمیریوں کی گفتگو سے عیاں ہے کہ وہ اُن سیاحوں کے اہل خانہ کے درد کو محسوس کررہے ہیں جن کے عزیزوں کو بچانے کی کوشش اُن کے اختیار میں ہوتی تو وہ، اس کوشش سے کسی قیمت پر پیچھے نہ ہٹتے، بالکل اُس نوجوان کی طرح جس کا نام سید عادل حسین شاہ تھا اور جس نے سیاحوں کے تحفظ کیلئے اپنی جان قربان کردی۔ پیر کو کشمیر اسمبلی میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جو اظہار خیال کیا اُس کے ذریعہ بھی اہل کشمیر کا موقف مستحکم ہوا ہے۔
چونکہ کشمیر مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے اسلئے وہاں کی سیکوریٹی کی ذمہ داری مرکز پر ہے ریاست پر نہیں ، اس کے باوجود عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’چونکہ مَیں وزیر اعلیٰ اور وزیر سیاحت ہوں اس لئے یہ میری ذمہ داری تھی کہ سیاح (جو الگ الگ ریاستوں سے آئے تھے) بخیر و عافیت اپنی ریاستوں او راپنے گھروں کو لوَٹتے، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ مَیں معافی بھی مانگ سکوں ۔‘‘ اُنہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ہم (اہل کشمیر) میں سے کوئی اس حملے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘ (It has hollowed us)۔عمر عبداللہ کے جذبات و احساسات کو اپوزیشن کے اراکین نے بھی محسوس کیا بلکہ اپوزیشن لیڈر سنیل شرما نے آل پارٹی میٹنگ بلانے کیلئے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور اسمبلی کے خصوصی اجلاس طلب کرنے کیلئے اسپیکر عبدالرحیم راتھر کی ستائش کی۔
جہاں پورا کشمیر پہلگام سانحہ کے خلاف رنجیدہ ہے اور عوام و خواص کو سیاحوں کی جانوں کے اتلاف کاغم ہے، وہیں ایک طبقہ ملک میں نفرت پھیلارہا ہے اور کشمیری طلبہ کو ڈرانے دھمکانے میں لگا ہوا ہے۔ مشہور ویب سائٹ ’’آرٹیکل ۱۴‘‘ پر پوسٹ کی گئی مسرت نبی کی رپورٹ میں ، جو ۲۵؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو آویزاں کی گئی، کئی طالب علموں کے بیانات نقل کئے گئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اُس مہم کے سبب خوفزدہ ہیں جو سوشل میڈیا پر جاری کی گئی۔ یاد رہے کہ کشمیری طلبہ کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ یا تو وہاں سے نکل جائیں یا نتائج بھگتنے کو تیار رہیں ۔ رپورٹ میں خاص طور پر اتراکھنڈ، پنجاب اور اتر پردیش کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان ریاستوں میں مختلف کورسیز کی تعلیم کیلئے آئے ہوئے کشمیری طلبہ ہراساں تھے، اُن کا بجا طور پر کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اُس سے اُن کا کیا لینا دینا۔
پڑھائی کیلئے گھر بار چھوڑنے والے ان طلبہ کو تسلی، تشفی اور اعتماد کی ضرورت تھی مگر اُنہیں خوفزدہ کیا گیا۔ کیا ایسا کرنے والوں نے اُنہی لوگوں کا ساتھ نہیں دیا جنہوں نے پہلگام حملہ کے ذریعہ ملک کو نقصان پہنچانا چاہا؟