لال قلعہ پر منعقد کی جانے والی یوم آزادی کی تقریب ہندوستانی جمہوریت کی شان ہے۔ ایسی پُروقار اور شاندار تقریب کا ہر ہندوستانی انتظار کرتا ہے بھلے ہی وہ دہلی جاکر اُس تقریب میں خود شریک نہ ہوتا ہو۔ اب تو ٹی وی پر اس کا ’’سیدھا پرسارن‘‘ دیکھنے کو مل جاتا ہے مگر جب ٹی وی نہیں تھا، تب اس تقریب کی تفصیل ریڈیو پر سنی جاتی تھی اور لوگ بڑے ذوق و شوق سے اسے سنتے تھے۔
لال قلعہ پر منعقد کی جانے والی یوم آزادی کی تقریب ہندوستانی جمہوریت کی شان ہے۔ ایسی پُروقار اور شاندار تقریب کا ہر ہندوستانی انتظار کرتا ہے بھلے ہی وہ دہلی جاکر اُس تقریب میں خود شریک نہ ہوتا ہو۔ اب تو ٹی وی پر اس کا ’’سیدھا پرسارن‘‘ دیکھنے کو مل جاتا ہے مگر جب ٹی وی نہیں تھا، تب اس تقریب کی تفصیل ریڈیو پر سنی جاتی تھی اور لوگ بڑے ذوق و شوق سے اسے سنتے تھے۔ چونکہ یہ سرکاری تقریب ہوتی ہے جس کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری وزارت دفاع سنبھالتی ہے اس لئے پروٹوکول کو بھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مثلاً تمام مرکزی وزراء پہلی صف میں تشریف فرما ہونگے۔ انہی میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈروں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو اس بات کا پیغام ہے کہ اس جمہوری ملک میں حزب اختلاف بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ حکمراں طبقہ۔ مگر اس سال پروٹوکول کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈروں یعنی راہل گاندھی اور ملکارجن کھرگے کو پہلی صف میں جگہ نہیں دی گئی۔ اُنہیں پانچویں صف میں دھکیل دیا گیا۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ملکارجن کھرگے تقریب میں شریک نہیں تھے مگر راہل گاندھی نے شرکت کی اور اس بات پر کہ اُن کیلئے پانچویں صف میں نشست مختص کی گئی ہے، وہ نہ تو شاکی ہوئے نہ ہی اس کا بُرا مانا۔ وہ اُسی جگہ پر بیٹھ گئے اور تقریب کے اختتام تک رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران اُن سے کہا گیا کہ وہ اگلی صفوں میں آجائیں مگر اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ جو جگہ میرے لئے مخصوص کی گئی ہے میں وہاں ٹھیک ہوں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ راہل گاندھی نے اگلی صفوں میں آنے کی پیشکش کو ٹھکرا کر ٹھیک کیا اور پانچویں صف میں بیٹھنے کا بُرا نہ مان کر بھی بالکل ٹھیک کیا۔ اُنہوں نے نہایت شائستگی اور خاموشی سے اُن لوگوں کو آئینہ دکھا دیا جنہوں نے پروٹوکول توڑا ۔ ممکن ہے دانستہ ایسا کیا ہو کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھا جاتا ہے اور مہینوں اس کی تیاری ہوتی ہے۔ اگر دانستہ ایسا نہیں کیا گیا تھا تو تقریب کے آغاز سے قبل ہی یہ غلطی درست کی جاسکتی تھی جو نہیں کی گئی۔ بعدمیں وزارت دفاع کی وضاحت سے واضح ہوگیا کہ یہ غلطی نہیں تھی بلکہ عمداً ایسا کیا گیا تھا جس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ پیرس سے لوٹنے والے اولمپک کھلاڑیوں کیلئے جگہ بنانی تھی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنی بڑی تقریب میں صرف دو نشستوں کا انتظام کیا کوئی راکٹ سائنس تھا؟
ویسے اتنے برسوں میں راہل گاندھی کے مزاج کی سادگی اور بے نیازی کسی تعارف کی محتاج نہیں رہ گئی ہے۔ وہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ اُنہیں کہاں بٹھایا جارہا ہے یا کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ اپنے لباس کو بھی اُنہوں نے سادگی کی علامت بنالیا ہے جس پر مخالفین کو اعتراض ہے کہ وہ ٹی شرٹ پہن کر پارلیمنٹ آجاتے ہیں ۔ پانچویں صف میں دی جانے والی جگہ کو قبول کرکے راہل گاندھی نے عوام کی نظروں میں اپنا قد بڑھایا ہے جبکہ تقریب کے منتظمین نے اپنا قد گھٹایا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس واقعہ سے راہل کا سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ تقریب کے منتظمین کو پانچویں صف کے اپنے فیصلے پر یقیناً افسوس ہوا ہوگا کہ اُنہوں نے اپنا ایسا نقصان کرلیا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔